قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ الهَدِيَّةِ لِلْعَرُوسِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

5163. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ واسْمُهُ الْجَعْدُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ مَرَّ بِنَا فِي مَسْجِدِ بَنِي رِفَاعَةَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّ بِجَنَبَاتِ أُمِّ سُلَيْمٍ دَخَلَ عَلَيْهَا فَسَلَّمَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ فَقَالَتْ لِي أُمُّ سُلَيْمٍ لَوْ أَهْدَيْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً فَقُلْتُ لَهَا افْعَلِي فَعَمَدَتْ إِلَى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ فَاتَّخَذَتْ حَيْسَةً فِي بُرْمَةٍ فَأَرْسَلَتْ بِهَا مَعِي إِلَيْهِ فَانْطَلَقْتُ بِهَا إِلَيْهِ فَقَالَ لِي ضَعْهَا ثُمَّ أَمَرَنِي فَقَالَ ادْعُ لِي رِجَالًا سَمَّاهُمْ وَادْعُ لِي مَنْ لَقِيتَ قَالَ فَفَعَلْتُ الَّذِي أَمَرَنِي فَرَجَعْتُ فَإِذَا الْبَيْتُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى تِلْكَ الْحَيْسَةِ وَتَكَلَّمَ بِهَا مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ جَعَلَ يَدْعُو عَشَرَةً عَشَرَةً يَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَقُولُ لَهُمْ اذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ وَلْيَأْكُلْ كُلُّ رَجُلٍ مِمَّا يَلِيهِ قَالَ حَتَّى تَصَدَّعُوا كُلُّهُمْ عَنْهَا فَخَرَجَ مِنْهُمْ مَنْ خَرَجَ وَبَقِيَ نَفَرٌ يَتَحَدَّثُونَ قَالَ وَجَعَلْتُ أَغْتَمُّ ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ الْحُجُرَاتِ وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ فَقُلْتُ إِنَّهُمْ قَدْ ذَهَبُوا فَرَجَعَ فَدَخَلَ الْبَيْتَ وَأَرْخَى السِّتْرَ وَإِنِّي لَفِي الْحُجْرَةِ وَهُوَ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ قَالَ أَبُو عُثْمَانَ قَالَ أَنَسٌ إِنَّهُ خَدَمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ.

مترجم:

5163.

سیدنا ابو عثمان ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا انس ؓ کا ہمارے سامنے سے بنو رفاعہ کی مسجد سے گزر ہوا، میں نے سنا آپ فرما رہے تھے کہ نبی ﷺ کا معمول تھا آپ جب بھی سیدنا ام سلیم ؓ کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے اور انہیں سلام کرتے۔ اس کے بعد سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب سیدہ زینب‬ ؓ ک‬ے دلھا بنے تو مجھے (میری والدہ) ام سلیم ؓ نے کہا: اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کو کوئی تحفہ بھیجیں تو بہتر ہے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے ضرور بھیجیں چنانچہ انہوں نے کھجور، گھی، اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور مجھے دے کر آپ ﷺ کے پاس روانہ کیا۔ جب وہاں پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ پھر حکم دیا ”فلاں فلاں لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ ۔ ۔ “ آپ نے ان کا نام لیا۔ ۔ ۔ اور جو بی آدمی تجھے راستے میں ملے اسے میری طرف سے دعوت دے دو۔“ چنانچہ مجھے آپ نے جو حکم دیا تھا میں نے اس کی تعمیل کی۔ جب میں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں سے گھر بھرا ہوا ہے میں نے نبی ﷺ جو دیکھا کہ آپ نے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھ دیے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ اپنی زبان سے پڑھا، اس کے بعد دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلانا شروع کیا۔ آپ ان سے فرماتے تھے: ”اللہ کا نام لے کر ہر آدمی آپنے آگے سے کھائے۔“ بہر حال سب لوگ کھا کر گھرسے باہر چل دیے، البتہ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھے ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا آخر کار نبی ﷺ اپنی بیویوں کے حجروں کی طرف گئے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا، میں نے (آپ سے ﷺ سے) کہا: لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اس وقت آپ واپس آ کر گھر میں داخل ہوئے اور پردہ لٹکا دیا۔ میں ابھی حجرے ہی میں تھا آپ (سورہ احزاب) کی یہ آیات پڑھ رہے تھے۔ ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لیے اندر آنے کی اجازت دی جائے، وہاں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار نہ کرو، البتہ جب تمہیں بلایا جائے تو اندر جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی واپس چلے آؤ، باتوں میں لگ کر وہاں بیٹھے نہ رہو، یہ بات نبی کو تکلیف دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔“ ابو عثمان کہتے ہیں کہ سیدنا انس ؓ فرمایا کرتے تھے: بے شک میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت انجام دی ہے۔