تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان اور مذکورہ حدیث سے طلاق کا مسنون طریقہ بتایا ہے کہ خاوند جس طہر میں طلاق دینا چاہے اس میں اپنی بیوی سے ملاپ نہ کرے، پھر ایک ہی بار کی طلاق کو کافی سمجھے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس طرح عورت پر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ غیر مسنون طلاق کی صورتیں درج ذیل ہیں: ٭حالت حیض میں طلاق دی جائے۔ ٭ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں ملاپ کر چکا ہے۔ ٭بیک وقت تین طلاقیں دے۔ ٭ایک طہر میں ہی الگ الگ موقع پر تین طلاقیں دے۔ ان میں فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ طریقۂ طلاق حرام ہے۔ خاوند اس سے گناہ گار ہوگا، تاہم طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ خاوند نے معصیت اور حرام کا ارتکاب کیا ہے۔
(2) واضح رہے کہ طلاق اور رجوع میں گواہ بنانے کا بھی حکم اگرچہ رجوع اور طلاق کے لیے گواہی اس طرح شرط نہیں ہے کہ اس کے بغیر رجوع اور طلاق غیر مؤثر ہوتے ہیں بلکہ گواہ بنانے کا حکم برسبیل احتیاط ہے تاکہ بعد میں کوئی فریق کسی واقعے کا انکار نہ کرے اور جھگڑا اور اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہو سکے، نیز شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہو جائے۔ والله اعلم