قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا العِدَّةَ} [الطلاق: 1] )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {أَحْصَيْنَاهُ} [يس: 12] ’’ حَفِظْنَاهُ [ص:41] وَعَدَدْنَاهُ، وَطَلاَقُ السُّنَّةِ: أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وَيُشْهِدَ شَاهِدَيْنِ ‘

5252. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لِيُرَاجِعْهَا» قُلْتُ: تُحْتَسَبُ؟ قَالَ: فَمَهْ؟ وَعَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا» قُلْتُ: تُحْتَسَبُ؟ قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ،

مترجم:

ترجمۃ الباب:

  اور سنت کے مطابق یہی ہے کہ حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور اس طہر میں عورت سے ہم بستری نہ کی ہو اور اس پر دو گواہ مقرر کرے ۔ لفظ احصیناہ کے معنی ہم نے اسے یاد کیا اور شمار کرتے رہے ۔تشریح : لغت میں طلاق کے معنی بندھن کھول دینا اور چھوڑدینا ہے اور اصطلاح شرع میں طلاق کہتے ہیں اس پابندی کو اٹھادینا جو نکاح کی وجہ سے خاوند اور جورو پر ہوتی ہے۔ حافظ نے کہا کبھی طلاق حرام ہوتی ہے جیسے خلاف سنت طلاق دی جائے ( مثلاً حالت حیض میں یا تین طلاق ایک ہی مرتبہ دے دے یا اس طہر میں جس میں وطی کر چکا ہو ) کبھی مکروہ جب بلا سبب محض شہوت رانی اور نئی عورت کی ہو س میں ہو، کبھی واجب ہوتی ہے جب شوہر اور زوجہ میں مخالفت ہو اور کسی طرح میل نہ ہو سکے اور دونوں طرف کے پنچ طلاق ہی ہوجانی مناسب سمجھیں۔ کبھی طلاق مستحب ہوتی ہے جب عورت نیک چلن نہ ہو، کبھی جائز مگر علماءنے کہا ہے کہ جائز کسی صورت میں نہیں کہ مگر اس وقت جب نفس اس عورت کی طرف خواہش نہ کرے اور اس کا خرچ اٹھانا بے فائدہ پسند نہ کرے ۔ میں ( مولانا وحیدالزماں مرحوم ) کہتا ہوں اس صورت میں بھی طلاق مکروہ ہوگی۔ خاوند کو لازم ہے کہ جب اس نے ایک عفیفہ پاک دامن عورت سے جماع کیا تو اب اس کو نبا ہے اور اگر صرف یہ امر کہ اس عورت کو دل نہیں چاہتا طلاق کے جواز کی علت قرار دی جائے تو پھر عورت کو بھی طلاق کا اختیار ہونی چاہئے ۔ جب وہ خاوند کو پسند نہ کرے حالانکہ ہماری شریعت میں عورت کو طلاق کا اختیار بالکل نہیں دیا گیاہے ( ہاں خلع کی صورت ہے جس میں عورت اپنے آپ کو مرد سے جدا کر سکتی ہے جس کے لیے شریعت نے کچھ ضوابط رکھے ہیں جن کو اپنے مقام پر لکھا جائے گا ) نکاح کے بعد اگر زوجین میں خدانخواستہ عدم موافقت پیدا ہوتو اس صورت میں حتٰی الامکان صلح صفائی کرائی جائے جب کوئی بھی راستہ نہ بن سکے تو طلاق دی جائے۔ ایک روایت ہے کہ ابغض الحلال عنداللہ الطلاق ( او کما قال ) یعنی حلال ہونے کے باوجود طلاق عنداللہ بہت ہی بری چیز ہے مگر افسوس کہ آج بھی بیشتر مسلمانوں میں یہ بیماری حد سے آگے گزری ہوئی ہے اور کتنے ہی طلاق سے متعلق مقدمات غیر مسلم عدالتوں میں دائر ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مجلس کی تین طلاق کے ( عندالاحناف ) وقوع نے تو اس قدر بیڑہ غرق کیا ہے کہ کتنی نوجوان لڑکیاں زندگی سے تنگ آجاتی ہیں۔ کتنی غیر مذہب میں داخلہ لے کر خلاصی حاصل کرتی ہیں مگر علمائے احناف ہیں الا ما شاءاللہ جو ٹس سے مس نہیں ہوتے اور برا بر وہی دقیانوسی فتویٰ صادر کئے جاتے ہیں۔ پھر حلالہ کا راستہ اس قدر مکروہ اختیار کیا ہوا ہے کہ جس کے تصور سے بھی غیرت انسانی کو شرم آجاتی ہے۔ اس بارے میں مفصل مقالہ آگے آرہا ہے جو غور سے مطالعہ کے قابل ہے۔ جس کے لیے میں اپنے عزیز بھائی مولانا عبدالصمد رحمانی خطیب دہلی کا ممنون ہوں۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء۔ یہ بے حد خوشی کی بات ہے کہ آج بہت سے اسلامی ممالک نے ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ کو قانونی طور پر ایک ہی تسلیم کیا ہے۔

5252.

سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ سیدنا عمر ؓ نے اس کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے چاہیے کہ رجوع کرے۔“ (راوی کہتا ہے) میں نے ابن عمر ؓ سے پوچھا: اس طلاق کو شمار کیا جائے گا؟ انہوں نے جواب دیا اور کیا ہوگا؟ قتادہ نے یونس بن جبیر کے ذریعے سے سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ رجوع کرے۔“ میں نے پوچھا: کیا طلاق شمار کی جائے گی؟ سیدنا ابن عمر ؓ نے جواب دیا تو کیا سمجھتا ہے اگر عبداللہ عاجز ہو جائے اور حماقت کا مرتکب ہو تو کیا طلاق واقع نہ ہوگی؟