تشریح:
دوران حیض میں دی گئی طلاق کے متعلق اختلاف ہے کہ نافذ ہو گی یا نہیں؟ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ اس انداز سے طلاق دینا اگرچہ خلاف سنت ہے، تاہم طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ حضرات کا خیال ہے کہ دوران حیض میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوگی کیونکہ یہ طلاق خلاف سنت ہے اور خلاف سنت کام مردود ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف جمہور اہل علم کے مطابق ہے کہ دوران حیض میں دی گئی طلاق نافذ ہو جاتی ہے۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: ٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما خود کہتے ہیں کہ طلاق مجھ پر شمار کر لی گئی تھی جیسا کہ درج بالا قول میں صراحت ہے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کا حکم دیا اور رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہوتا ہے اور اس رجوع کو لغوی قرار دینا سخن سازی اور سینہ زوری ہے۔ ٭اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے جو طلاق دی ہے وہ ایک ہے۔‘‘ (سنن الدارقطني: 4/9)
٭ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ طلاق جو اس نے دی ہے اسے شمار کیا جائے گا۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 236/7) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بھی خیال نہ کیا۔ ( سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2185) ائمۂ حدیث نے اس حدیث میں اس اضافے کو "منکر" قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 439/9) صحیح ہونے کی صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقۂ کار کو درست خیال نہ فرمایا۔ والله اعلم