قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ الخُلْعِ وَكَيْفَ الطَّلاَقُ فِيهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ} [البقرة: 229]- إِلَى قَوْلِهِ - {الظَّالِمُونَ} [البقرة: 229] وَأَجَازَ عُمَرُ، الخُلْعَ دُونَ السُّلْطَانِ وَأَجَازَ عُثْمَانُ، الخُلْعَ دُونَ عِقَاصِ رَأْسِهَا وَقَالَ طَاوُسٌ: {إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ} [البقرة: 229] فِيمَا افْتَرَضَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ فِي العِشْرَةِ وَالصُّحْبَةِ، وَلَمْ يَقُلْ قَوْلَ السُّفَهَاءِ: لاَ يَحِلُّ حَتَّى تَقُولَ لاَ أَغْتَسِلُ لَكَ مِنْ جَنَ

5273. حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْبَلِ الحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «لاَ يُتَابَعُ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ” اور تمہارے لیے ( شوہروں کے لیے ) جائز نہیں کہ جو ( مہر ) تم انہیں ( اپنی بیویوں کو ) دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو ، سوا اس صورت کے جبکہ زوجین اس کا خوف محسوس کریں کہ وہ ( ایک ساتھ رہ کر ) اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے ۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے خلع جائز رکھا ہے ۔ اس میں بادشاہ یا قاضی کے حکم کی ضرورت نہیں ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر جورو اپنے سارے مال کے بدلہ میں خلع کرے صرف جوڑا باندھنے کا دھاگہ رہنے دے تب بھی خلع کرانا درست ہے ۔ طاؤس نے کہا کہ الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ کا یہ مطلب ہے کہ جب جورو اور خاوند اپنے اپنے فرائض کو جو حسن معاشرت اور صحبت سے متعلق ہیں ادانہ کر سکیں ( اس وقت خلع کرانا درست ہے ) طاؤس نے ان بیوقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ خلع اسی وقت درست ہے جب عورت کہے کہ میں جنابت یا حیض سے غسل ہی نہیں کروں گی ۔تشریح : اب تو صحبت کیسے کرے گا۔ اسے عبدالرزاق نے وصل کیا یہ ابن طاؤس کا قول ہے کہ ان بے وقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا۔ انہوں نے اس کا رد کیا کہ خلع صرف اسی وقت درست ہے جب عورت بالکل مرد کا کہنا نہ سنے اور کسی طرح اصلاح کی امید نہ ہو جیسے سعید بن منصور نے شعبی سے نکالا ۔ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا میں تو تیری کوئی بات نہیں سنوں گی نہ تیری قسم پوری کروں گی نہ میں جنابت کا غسل کروں گی۔ اس وقت شعبی نے کہا اگر عورت ایسی ناراض ہے تو اب خاوند کو جائز ہے کہ اس سے کچھ لے لے اوراسے چھوڑ دے۔نوٹ : جو معترضین کہتے ہیں کہ عورت کو شادی کے معاملہ میں اسلام نے مجبور کردیا ہے ان کا یہ قول سرا سر غلط ہے۔ اول تو عورت کی بغیر اجازت نکاح ہی نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے اگر عورت پر ظلم ہو رہا ہے تو اس کو اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اسی کو اسلام میں لفظ خلع سے ذکر کیا گیا ہے۔ عورت اس حالت میں قاضی اسلام کے ذریعہ شرعی طریقہ پر خلع کے ذریعہ ایسے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے پورے طور پر مختار ہے۔ لہٰذا معترضین کے ایسے جملہ اعتراضات غلط ہیں۔

5273.

سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ثابت بن قیس ؓ کی بیوی، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی : اللہ کے رسول! مجھے ثابت بن قیس کے اخلاق و دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں البتہ میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم ان کا دیا ہوا باغ واپس کر سکتی ہو؟“ اس نے کہا: ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے (حضرت ثابت سے) فرمایا: ”باغ قبول کر کے اس کو آزاد کردو۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ ) فرماتے ہیں کہ اس روایت میں ''عن ابن عباس'' کا ذکر کرنے میں ازہر بن جمیل کی متابعت نہیں کی گئی (بلکہ اس طریق سے دوسروں نے مرسل روایت بیان کی ہے)