تشریح:
(1) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی قسم کی بداخلاقی کا مظاہرہ نہین کیا تھا، البتہ وہ شکل و صورت کے اعتبار سے اتنے خوبصورت نہ تھے جبکہ ان کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے بہت حسن و جمال دے رکھا تھا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دن کسی جھگڑے کی وجہ سے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے مارا اور اس کا ہاتھ توڑ دیا، اسی وجہ سے ان کی بیوی میں نفرت کے جذبات پرورش پا چکے تھے۔ اس نے اپنی نفرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ڈر نہ ہوتا تو جب یہ میرے پاس آئے تھے میں ان کے منہ پر تھوک دیتی۔ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2057، و فتح الباري: 495/9)
(2) خلع کی صورت میں بیوی کو حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے اور خاوند بھی حق مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا: ’’وہ اس سے اپنا باغ وصول کرے اور زیادہ کچھ نہ لے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2056) لیکن بیوی اپنی مرضی سے اپنی جان چھڑانے کے لیے حق مہر سے کچھ زیادہ دینا چاہے تو جائز ہے کیونکہ شریعت میں اس کی ممانعت موجود نہیں اور جن روایات میں زیادہ دینے کی ممانعت ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ والله اعلم