تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ہےکہ جو اشیاء اجزا ئے ایمان ہیں، ان کے لیے ضروری نہیں کہ ان کا تعلق ایمان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو کیونکہ ادائے خمس ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق مستقل نہیں بلکہ جب مال غنیمت ہو گا تو اس سے خمس ادا کرنے کی ضرورت پڑے گی، نیز حدیث وفد عبدالقیس میں ایمان کے متعلق جو اجزاء بیان ہوئے ہیں ان پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جستہ جستہ عنوان قائم کر چکے ہیں، صرف ادائے خمس باقی تھا جس پر اب عنوان قائم کیا ہے۔
2۔ اس حدیث میں کچھ مامورات ہیں اور کچھ منہیات ہیں۔ مامورات کے متعلق اجمالاً چار چیزوں کا حکم ہے لیکن شمار کرنے میں پانچ ہیں یعنی شہادت ،نماز، زکاۃ، روزہ اور ادائے خمس، دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار چیزوں کا حکم دیا اور چار ہی سے منع فرمایا اور ان دونوں کے دو دو درجے قائم کیے، ایک اجمال کا دوسرا تفصیل کا، امر کے سلسلے میں اجمال کا درجہ شہادت ہے جس کی تفصیل میں چار امر ذکر کیے گئے اور (نَهی)کے سلسلے میں اجمال یہ ہے کہ آپ نے مسکرات سے منع فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل میں ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا: جن میں شراب کشید کی جاتی تھی یا ان میں اسے محفوظ کیا جاتا تھا۔
3۔ حدیث جبرائیل میں جو چیزیں اسلام کے متعلق بیان فرمائیں وہی چیزیں حدیث عبد القیس میں ایمان کے متعلق ذکر کیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں اسلام اور ایمان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہ سب چیزیں داخل ایمان ہیں ان کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی جزو ایمان ہے۔ اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو ایمان و تصدیق کے بعد اعمال کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔
4۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابو جمرہ کو اپنے ہاں قیام کرنے کی پیش کش فرمائی، پھرانھیں وظیفہ دینے کا وعدہ فرمایا، اس اعزاز واکرام کی چند ایک وجوہات تھیں:
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بصرے کے گورنر تھے اور ان کے پاس ہر قسم کے مقدمات آتے تھے۔ انھیں اس سلسلے میں فارسی زبان میں سماعت کی بھی ضرورت رہتی تھی۔ حضرت ابو جمرہ فارسی جانتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان سے ترجمان کا کام لینا چاہتے تھے۔
(2) خود ابو جمرہ بیان کرتے ہیں کہ اس شفقت و مہربانی کی وجہ ایک خواب تھا، فرماتے ہیں کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا ، لوگوں نے اعتراض کیا تو میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتوی دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ درست ہے، پھر میں نے خواب میں یہ آواز سنی کہ حج مبرور اور عمرہ مقبول۔ میں نے اس کا تذکرہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے ہاں اقامت اور وظیفےکی پیش کش فرمائی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1587)
5۔ قبیلہ عبدالقیس بحرین میں آباد تھا۔ وہاں منقذ بن حبان کے ذریعے سے اسلام پہنچا جو بحرین سے مدینہ منورہ بغرض تجارت کپڑا لائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے۔ بحرین اور اہل بحرین کے حالات دریافت کیے۔ آپ نے اسلام پیش کیا، وہ مسلمان ہوگئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورۃ فاتحہ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ سیکھیں اور آپ نے قبیلہ عبد القیس کے نام ایک خط بھی دیا گھر واپس پہنچے چند دن ایمان کو چھپائے رکھا نماز کا وقت ہوتا تو گھر میں پڑھ لیتے ، ان کی بیوی نے اپنے باپ منذر بن عائذ الاشج سے ان کا ذکر کیا، جب سسر نے اپنے داماد سے حقیقت حال دریافت کی تو پوری داستان سنا دی۔ یہ بھی مسلمان ہوگئے۔ پھر ان کی تبلیغ سے ایک جماعت نے اسلام قبول کر لیا اور 6 ہجری میں بارہ حضرات کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر 8 ہجری میں چالیس افراد پر مشتمل دوسرا وفد حاضر ہوا جن کا واقعہ متعلقہ حدیث میں مذکورہے۔ (فتح الباري: 173/1) مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں شروع کیا گیا جو بحرین میں واقع تھا اور یہ مسجد عبدالقیس ہی میں شروع ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 892)
6۔ حرمت والے مہینوں سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں۔ کفار ان کی بے حد تعظیم کرتے تھے اور ان مہینوں میں کسی دوسرے پر دست درازی کرنے سے باز رہتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنا اور خندہ پیشانی سے ملنا اسلامی ادب ہے نیز ایک مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایمان و علم کی باتوں کو اپنے سینے میں محفوظ کرکے اسے دوسروں تک پہنچائے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 87)
7۔ جن برتنوں میں شراب سازی منع تھی وہ یہ ہیں: حنتم: ’’سبز مٹکا‘‘ دُبا: ’’کدو کو اندر سے صاف کر کے پیالہ سا بنا لیا جاتا تھا۔‘‘نقیر: ’’لکڑی کے کھودے ہوئے لگن‘‘ مزفت: ’’تار کول سے روغن کیے ہوئے برتن ۔‘‘ یہ امتناعی حکم پہلے پہلے تھا، بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا۔ فرمان نبوی ہے: ’’میں نے تمھیں مخصوص برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔اب تم ہر برتن میں نبیذ بنا سکتے ہو، لیکن نشہ آور سے اجتناب کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207 (977بعد 1999))