قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ اللِّعَانِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ} [النور: 6]- إِلَى قَوْلِهِ - {إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ} [النور: 9] «فَإِذَا قَذَفَ الأَخْرَسُ امْرَأَتَهُ، بِكِتَابَةٍ أَوْ إِشَارَةٍ أَوْ بِإِيمَاءٍ مَعْرُوفٍ، فَهُوَ كَالْمُتَكَلِّمِ، لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺقَدْ أَجَازَ الإِشَارَةَ فِي الفَرَائِضِ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الحِجَازِ وَأَهْلِ العِلْمِ،» وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي المَهْدِ صَبِيًّا؟} وَقَالَ الضَّحَّاكُ، {إِلَّا رَمْزًا} [آل عمران: 41] «إِلَّا إِشَارَةً» وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لاَ حَدَّ وَلاَ لِعَانَ، ثُمَّ زَعَمَ: أَنَّ الطَّلاَقَ بِكِتَابٍ أَوْ إِشَارَةٍ أَوْ إِيمَاءٍ جَائِزٌ، وَلَيْسَ بَيْنَ الطَّلاَقِ وَالقَذْفِ فَرْقٌ، فَإِنْ قَالَ: القَذْفُ لاَ يَكُونُ إِلَّا بِكَلاَمٍ، قِيلَ لَهُ: كَذَلِكَ الطَّلاَقُ لاَ يَجُوزُ إِلَّا بِكَلاَمٍ، وَإِلَّا بَطَلَ الطَّلاَقُ وَالقَذْفُ، وَكَذَلِكَ العِتْقُ، وَكَذَلِكَ الأَصَمُّ يُلاَعِنُ وَقَالَ الشَّعْبِيُّ، وَقَتَادَةُ: «إِذَا قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ، فَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ، تَبِينُ مِنْهُ بِإِشَارَتِهِ» وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: «الأَخْرَسُ إِذَا كَتَبَ الطَّلاَقَ بِيَدِهِ لَزِمَهُ» وَقَالَ حَمَّادٌ: «الأَخْرَسُ وَالأَصَمُّ إِنْ قَالَ بِرَأْسِهِ، جَازَ»

5303. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ اليَمَنِ: «الإِيمَانُ هَا هُنَا - مَرَّتَيْنِ - أَلاَ وَإِنَّ القَسْوَةَ وَغِلَظَ القُلُوبِ فِي الفَدَّادِينَ - حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ - رَبِيعَةَ وَمُضَرَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں فرمایا اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس ان کی ذات کے سوا کوئی گواہ نہ ہو ، آخر آیت ” من الصادقین “ تک ۔ اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر ، اشارہ سے یا کسی مخصوص اشارہ سے تہمت لگائے تو اس کی حیثیت بولنے والے کی سی ہوگی کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز قرار دیا ہے اور یہی بعض اہل حجاز اوربعض دوسرے اہل علم کا فتویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اور ( مریم علیہا السلام نے ) ان کی ( عیسیٰ ) طرف اشارہ کیا تو لو گوں نے کہا کہ ہم اس سے کس طرح گفتگو کر سکتے ہیں جو ابھی گہوارہ میں بچہ ہے ۔ “ اور ضحاک نے کہا کہ ” الا رمزا “ بمعنی ” الاشارۃ “ ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ( اشارہ سے ) حد اورلعان نہیں ہو سکتی ہے ۔ جبکہ وہ یہ مانتے ہیںکہ طلاق کتابت ، اشارہ اور ایماءسے ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ طلاق اور تہمت صرف کلام ہی کے ذریعہ مانی جائے گی تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر یہی صورت طلاق میں بھی ہونی چاہیئے اور وہ بھی صرف کلام ہی کے ذریعہ معتبر مانا جانا چاہیئے ورنہ طلاق اور تہمت ( اگر اشارہ سے ہو ) تو سب کو باطل ماننا چاہیئے اور ( اشارہ سے غلام کی ) آزادی کا بھی یہی حشر ہوگا اور یہی صورت لعان کرنے والے گونگے کے ساتھ بھی پیش آئے گی اور شعبی اور قتادہ نے بیان کیا کہ جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ” تجھے طلاق ہے “ اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا تووہ مطلقہ بائنہ ہو جائے گی ۔ ابراہیم نے کہا کہ گونگا اگر طلاق اپنے ہاتھ سے لکھے تووہ پڑ جاتی ہے ۔ حماد نے کہاکہ گونگے اور بہرے اپنے سر سے اشارہ کریں تو جائز ہے ۔بعض لوگ جب یہ مانتے ہیں کہ طلاق کتا بت ، اشارے اور ایماءسے ہو سکتی ہے تو ان کا یہ فتویٰ بالکل غلط ہے کہ اشارے سے حد اور لعان نہیں ہو سکتے۔تشریح : یعنی ضحاک بن مزاحم نے جو تفسیر کے امام ہیں اور عبدبن حمید اور ابو حذیفہ نے سفیان ثوری کی تفسیر میں اس کی تصریح کر دی ہے۔ اب کرمانی کا یہ کہنا یہ ضحاک بن شراحیل ہیں محض غلط ہے۔ ضحاک بن شراحیل تو تابعین ہیں مگر ان سے قرآن کی تفسیر بالکل منقول نہیں ہے اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے صرف دو احادیث اس کتاب میں نقل کی ہیں ۔ ایک فضائل قرآن میں ایک استتابہ بمرتدین میں۔ میں ( وحیدالزماں ) کہتاہوں کہ علم حدیث میں قیاس سے ایک بات کہہ دینے میں یہی خرابیاں ہوتی ہیں جو کرمانی اور عینی سے اکثر مقامات میں ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حافظ ابن حجر کو جزائے خیر دے ۔ انہوں نے کرمانی کی بہت سے غلطیاں ہم کو بتلادی ہیں۔

5303.

سیدنا ابو مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے یمن کی طرف اشارہ کر کے دو مرتبہ فرمایا: ”برکتیں ادھر ہیں نیز سختی اور سنگ دلی ان کرخت آواز والوں میں ہے، جہاں سے شیطان کے دونوں سینگ طلوع ہوتے ہیں، یعنی ربیعہ اور مضر میں۔“