تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے غلیل میں پتھر رکھ کر پھینکنے کا اثبات کیا ہے اور اس سے شکار کرنا ناجائز ٹھہرایا ہے کیونکہ غلیلہ اپنے بوجھ اور زور سے شکار کو مارتا ہے، وہ گوشت کو چیرتا نہیں ہے۔
(2) دور حاضر کی ایجاد بندوق کے ذریعے سے شکار حلال ہے یا حرام؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ اکثر علماء بندوق کے ذریعے سے کیے ہوئے شکار کو حرام کہتے ہیں لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بندوق سے کیا ہوا شکار حلال ہے کیونکہ اس کی گولی، لاٹھی یا چھڑی کی طرح جسم سے نہیں ٹکراتی بلکہ تیر یا کسی بھی تیز دھار آلے کی طرح جسم کو پھاڑ کر نکل جاتی ہے، اور اس کارتوس میں چھوٹے چھوٹے لوہے کے ٹکڑے ہوتے ہیں جو جسم کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ جن روایات میں بندوق کے شکار کی ممانعت یا کراہت موجود ہے اس سے مراد موجودہ بندوق کی گولی نہیں بلکہ مٹی کی بنی ہوئی گولی ہے جسے غلیلہ کہا جاتا ہے۔ اس سے مارا ہوا شکار موقوذہ کے حکم میں ہے کیونکہ یہ جسم سے ٹکرا کر سخت چوٹ سے جانور کو مار دیتی ہے۔ واللہ أعلم