تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کتا اگر شکار کرنے کے بعد خود اس میں سے کھا لے تو اسے نہیں کھانا چاہیے کیونکہ اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا تھا لیکن ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ اگر کتا اس میں سے خود بھی کھا لے تو بھی مالک کے لیے اس کا کھانا جائز ہے۔ (سنن أبي داود، الصید، حدیث: 2852) محدثین نے ان احادیث میں تطبیق کی کئی ایک صورتیں بیان کی ہیں جو حسب ذیل ہیں: ٭ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ابوداود کی حدیث کو داود بن عمرو کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (عمدة القاري: 476/14) لیکن جو روایت ہم نے ذکر کی ہے اس میں یہ راوی نہیں ہے۔ وہ حدیث: 2848 میں ہے۔ یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ ٭ اس کی تاویل اس طرح کی گئی ہے کہ شکاری کتے نے شکار پکڑ کر مار ڈالا اور اسے مالک کے لیے رکھ چھوڑا، خود وہاں سے دور چلا گیا، پھر دوبارہ واپس آ کر اس سے کچھ کھا لیا تو اس حالت میں مالک کے لیے کھانا جائز ہے، ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ چونکہ غریب اور نادار تھے، اس لیے ان کے لیے اجازت دی گئی حضرت عدی بن حاتم مال دار تھے ان کے لیے اجازت نہ دی گئی۔ بہرحال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اور پہلو بھی ذکر کیے ہیں، (فتح الباري: 745/9) تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ اگر کتا خود کھا لے تو مالک اسے نہ کھائے۔ واللہ أعلم