تشریح:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم اس کی کھال اتارتے اور اسے دباغت کے بعد اس سے فائدہ حاصل کرتے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 806 (363)) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردار کے چمڑے کو رنگنے کے بعد ہی کارآمد بنایا جا سکتا ہے، البتہ امام زہری کا موقف ہے کہ مردار کے چمڑے سے رنگے بغیر بھی فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کا ایک شاذ موقف ہے۔ اس سلسلے میں تمام احادیث اس کا رد کرتی ہیں کیونکہ چمڑا رنگنے ہی سے پاک ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جب چمڑے کو رنگ دیا جاتا ہے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 812 (366)) بعض اہل علم کا خیال ہے کہ رنگنے سے کوئی بھی چمڑا پاک نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ مردار کے چمڑے اور پٹھوں سے فائدہ حاصل نہ کرو۔ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1729) اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ إهاب اس چمڑے کو کہتے ہیں جو رنگا ہوا نہ ہو اور رنگنے کے بعد اس پر دوسرے الفاظ کا اطلاق ہوتا ہے، اس لیے ممانعت والی احادیث اس چمڑے پر محمول ہوں گی جو ابھی رنگا ہوا نہ ہو۔ کتے اور خنزیر کے چمڑے کے علاوہ ہر مردار کا چمڑا رنگنے سے پاک ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن میں خنزیر کو رجس کہا گیا ہے اور کتے کو بھی نجاست پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس پر قیاس کیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو بھی چمڑا رنگا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3609)