(1) عنوان میں رکعت کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں ایک سجدے کے پا لینے کا بیان ہے۔ امام بخاری ؒ اس عنوان کے ذریعے سے حدیث کی تشریح کرتے ہیں کہ اس مقام پر سجدے سے مراد رکعت ہے کیونکہ سجدے پر رکعت مکمل ہوتی ہے، اس لیے آخری جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایات میں"سجدة" کے بجائے"رکعة" کا لفظ ہے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:579)
(2) ادراک کے معنی یہ ہیں کہ ایک رکعت پا لینے سے اسے نماز کا وقت مل گیا ہے، اسے چاہیے کہ بقیہ رکعات ادا کرکے اپنی نماز مکمل کر لے۔ جیسا کہ سنن بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے طلوع شمس سے پہلے صبح کی ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت طلوع آفتاب کے بعد ادا کی تو اس نے نماز کو پا لیا۔ اور اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ یہ روایت ہے کہ جس نے غرب آفتاب سےپہلے ایک رکعت پڑھ لی اور بقیہ رکعات کو غروب آفتاب کے بعد ادا کیا تو اس کی نماز عصر فوت نہیں ہوئی۔ (فتح الباري :75/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری کا مقصود یہ ہے کہ اگر غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت بھی مل گئی، خواہ باقی رکعات غروب کے بعد پڑھی گئی ہوں تو بھی نماز ہو گئی، اسے قضا ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ امام بخاری کو اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ امام شافعی نے وقت عصر کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:
٭وقت مستحب: زوال آفتاب کے بعد جب کسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔
٭ وقت جواز قدرے فضیلت کےساتھ: دومثل سایہ ہونے تک ہے۔
٭مجرد وقت جواز: دومثل مکمل سایہ ہونے کے بعد دھوپ کے زرد ہونے تک ہے۔
٭وقت ضرورت:زردئ آفتاب کے بعد درجۂ مجبوری کا وقت ہے۔ اس وقت تک مؤخر کرنے والا نمازی گناہ گار بھی ہو گا۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نماز وقت ضرورت میں ادا کرے تو اگرچہ اس کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ ہو، فریضۂ نماز ادا ہو جائے گا، یہ اور بات ہے کہ تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ وقت ضرورت تک نماز مؤخر کرنے کے باوجود قضا اور اعادے کی ضرورت نہیں۔ والله أعلم.