تشریح:
(1) محدثین کرام کہتے ہیں کہ جو چیز بھی عقل کو ڈھانپ لے وہ خمر ہے اور یہ حرام ہے۔ اس قسم کا مشروب اگر زیادہ نوش کرنا نشے کا باعث ہے تو اس کا تھوڑا بھی منع ہے، خواہ وہ ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس موقف کی بنیاد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خطبہ ہے جو انہوں نے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے ہو کر دیا۔ عقلی طور پر اس کی علت اس مشروب میں نشہ آور ہونے کی صلاحیت ہے بالفعل اس کا نشہ آور ہونا نہیں۔
(2) اہل کوفہ کا موقف ہے کہ اصل شراب وہ ہے جو انگوروں سے تیار کی جائے، ایسی شراب کا قلیل و کثیر مقدار میں پینا حرام ہے۔ اگر انگور کے علاوہ دوسری اشیاء سے شراب تیار کی جائے تو اسے مجازی طور پر تو خمر کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقی طور پر اسے خمر کا نام دیا نہیں جا سکتا۔ اس طرح کا مشروب اس وقت حرام ہو گا جب عملی طور پر نشہ آور ہو۔ اس کی اتنی مقدار پینا جائز اور حلال ہے جس سے نشہ نہ آئے اگرچہ اس میں نشہ آور ہونے کی صلاحیت موجود ہو۔ متعدد احادیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے یہ مؤقف مردود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد ابواب اسی موقف کی تردید میں قائم کیے ہیں کہ حرمت کی علت نشے کی صلاحیت ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حرام مشروبات کے بارے میں ایک قاعدہ بیان کر دیا ہے کہ ہر وہ مشروب جو عقل کو زائل کر دے وہ خمر ہے۔ چاولوں سے تیار شدہ مشروب کے متعلق بھی یہی حکم ہو گا اگر اس کے استعمال سے نشہ آتا ہے تو حرام ہے۔ اگر نشے کی صلاحیت سے عاری ہے تو حرام نہیں ہے۔ واللہ المستعان