باب: داغ لگوانا یا لگانا اور جو شخص داغ نہ لگوائے اس کی فضیلت کابیان
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Branding (cauterizing))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5752.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہون نے کہا کہ نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے علاوہ کسی دوسری بیماری جھاڑ پھونک جائز نہیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے بذریعۂ داغ علاج ترک کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پر خالص توکل کر کے اس قسم کا علاج نہ کرانا بہت بڑی عزیمت کی بات ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ پر خالص توکل کر کے جائز علاج کرانا توکل کے منافی نہیں، تاہم اس میں فضیلت نہیں۔ (2) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آگ سے داغنے کی دو قسمیں ہیں: ٭ صحیح تندرست آدمی خود کو آگ سے داغے تاکہ وہ بیمار نہ ہو۔ اس قسم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس نے خود کو داغ دیا اس نے اللہ پر توکل نہیں کیا۔ ٭ زخمی کو آگ سے داغ دینا تاکہ وہ زخم آگے نہ بڑھے یا خراب نہ ہو۔ اس قسم کا داغ مشروع ہے۔ چونکہ اس سے شفا ضروری نہیں، اس لیے اس کا ترک کرنا باعث فضیلت ہے۔ (3) بہرحال جن احادیث میں اس طریقے علاج سے نہی وارد ہے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ وضاحت گزر چکی ہے۔ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھری تھی، (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2911) لیکن یہ مروجہ داغ دینے سے ایک الگ چیز ہے۔ (فتح الباري: 193/10)واللہ أعلم۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الرقاق میں ہو گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5490
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5705
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5705
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5705
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
عربوں کے ہاں ایک طریقۂ علاج یہ ہے کہ متاثرہ جسم کے حصے کو آگ سے داغ دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا جائز ہے لیکن فضیلت یہ ہے کہ اس قسم کا طریقۂ علاج اختیار نہ کیا جائے۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند نہیں کیا، پھر آگ سے کسی کو تکلیف دینا یہ رب العالمین کا حق ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ مریض کو اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہون نے کہا کہ نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے علاوہ کسی دوسری بیماری جھاڑ پھونک جائز نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے بذریعۂ داغ علاج ترک کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پر خالص توکل کر کے اس قسم کا علاج نہ کرانا بہت بڑی عزیمت کی بات ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ پر خالص توکل کر کے جائز علاج کرانا توکل کے منافی نہیں، تاہم اس میں فضیلت نہیں۔ (2) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آگ سے داغنے کی دو قسمیں ہیں: ٭ صحیح تندرست آدمی خود کو آگ سے داغے تاکہ وہ بیمار نہ ہو۔ اس قسم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس نے خود کو داغ دیا اس نے اللہ پر توکل نہیں کیا۔ ٭ زخمی کو آگ سے داغ دینا تاکہ وہ زخم آگے نہ بڑھے یا خراب نہ ہو۔ اس قسم کا داغ مشروع ہے۔ چونکہ اس سے شفا ضروری نہیں، اس لیے اس کا ترک کرنا باعث فضیلت ہے۔ (3) بہرحال جن احادیث میں اس طریقے علاج سے نہی وارد ہے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ وضاحت گزر چکی ہے۔ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھری تھی، (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2911) لیکن یہ مروجہ داغ دینے سے ایک الگ چیز ہے۔ (فتح الباري: 193/10)واللہ أعلم۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الرقاق میں ہو گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے حضرت عمران بن حصین ؓ نے کہا کہ نظر بد اورزہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں۔
حدیث حاشیہ:
خالص اللہ پر توکل رکھنا اور اسی عقیدہ کے تحت جائز علاج کرانا بھی توکل کے منافی نہیں ہے پھر وہ لوگ خالص توکل پر قائم رہ کر کوئی جائز علاج نہ کرائیں وہ یقینا اس فضیلت کے مستحق ہوں گے۔ جعلنااللہ منھم آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Nations were displayed before me; one or two prophets would pass by along with a few followers. A prophet would pass by accompanied by nobody. Then a big crowd of people passed in front of me and I asked, Who are they Are they my followers?" It was said, 'No. It is Moses (ؑ) and his followers It was said to me, 'Look at the horizon.'' Behold! There was a multitude of people filling the horizon. Then it was said to me, 'Look there and there about the stretching sky! Behold! There was a multitude filling the horizon,' It was said to me, 'This is your nation out of whom seventy thousand shall enter Paradise without reckoning.' "Then the Prophet (ﷺ) entered his house without telling his companions who they (the 70,000) were. So the people started talking about the issue and said, "It is we who have believed in Allah and followed His Apostle; therefore those people are either ourselves or our children who are born m the Islamic era, for we were born in the Pre-lslamic Period of Ignorance.'' When the Prophet (ﷺ) heard of that, he came out and said. "Those people are those who do not treat themselves with Ruqya, nor do they believe in bad or good omen (from birds etc.) nor do they get themselves branded (Cauterized). but they put their trust (only) in their Lord " On that 'Ukasha bin Muhsin said. "Am I one of them, O Allah's Apostle?' The Prophet (ﷺ) said, "Yes." Then another person got up and said, "Am I one of them?" The Prophet (ﷺ) said, 'Ukasha has anticipated you."