تشریح:
(1) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پانے سے ہی پوری نماز ادا ہو گئی اور اسے اب بقیہ نماز مکمل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لے تو اس نے نماز کے وقت ادا کو پالیا، اب وہ باقی ماندہ نماز طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے بعد پڑھے گا تو بھی اسے ادا نماز ہی کا ثواب ملے گا۔ نماز کاجوحصہ وقت نکلنے کے بعد پڑھا گیا ہے، اسے بھی ادا ہی شمار کیا جائے گا، وہ قضا میں شامل نہیں ہوگا۔ جمہور محدثین کے ہاں حدیث کا یہی مفہوم ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: ’’جس نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پالی اور ایک طلوع آفتاب کے بعد پڑھی تو اس نے پوری نماز کو پالیا۔ اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھی اور پھر غروب آفتاب کے بعد باقی ماندہ نماز ادا کی تو اس کی نماز قضا نہیں ہوگی۔‘‘ (السنن الکبرٰی للبیھقی :378/1)
(2) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: اگر کسی کو نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پڑھنےکا وقت مل جاتا ہے تو وہ گویا پوری نماز وقت ادا ہی میں پڑھتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے پوری نماز کو پا لیا۔ اس حدیث کے الفاظ اس بات پر رہنمائی کرتے ہیں کہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگر کسی نے ایک رکعت پڑھ لی ہے تو اس نے اس نماز کا وقت ادا پالیا ہے۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم حصہ ملتا ہےتو وہ وقت ادا کو پانے والا نہیں ہوگا۔ اس طرح وقت ادا کے پالینے پر دوامرمرتب ہوتے ہیں:٭بلاشبہ جس نے ایک رکعت کو پا لیا تو اس کی باقی ماندہ نماز بھی وقت ادا میں شمار ہوگی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دانستہ طور پر نماز مؤخر کرے کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام نماز وقت ادا میں مکمل کرے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ بیٹھا سورج کاانتطار کرتا رہتا ہے،جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان چلاجاتا ہے تو کھڑا ہوکر چار ٹھونگیں مار کر اسے مکمل کرلیتا ہے۔وہ اس میں برائے نام ہی اللہ کاذکر کرتا ہے۔‘‘٭جو شخص کسی نماز کے وقت سے ایک رکعت ادا کرنے کی مقدار پالے، خواہ شروع وقت سے ہویاآخر وقت سے، اس پر پوری نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل دومثالوں سے کی جاتی ہے:٭ایک عورت کو غروب آفتاب سے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ وہ اس وقت میں ایک رکعت پڑھ سکتی تھی، لیکن اس نے نماز نہیں پڑھی تو اس کے ذمے پوری نماز مغرب کی ادائیگی ضروری ہے۔ حیض سے فراغت کے بعد وہ پوری نمازکی قضا کرے گی۔٭اگر کسی عورت کو طلوع آفتاب سے اتنا وقت پہلے حیض سے طہارت حاصل ہوئی کہ اس وقت میں فجر کی ایک رکعت ادا کی جاسکتی ہوتو اس کے ذمے پوری نماز فجر کی ادائیگی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی عورت کو غروب آفتاب کے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز مغرب کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ طلوع آفتاب سےاتنا وقت پہلے حیض سے پاک ہوتی ہے کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز فجر کی ادائیگی ضروری نہیں ہے، کیونکہ دونوں صورتوں میں اسے کم ازکم ایک رکعت ادا کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16، 17)
(3) علامہ نووی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جس نے صبح یا عصر کی ایک رکعت پڑھی، لیکن سلام پھیرنے سے پہلے پہلے اس کا وقت ختم ہوگیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی، بلکہ وہ اسے مکمل کرے، ایسا کرنے سے اس کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔ عصر کے متعلق تو تمام علمائے امت کا اتفاق ہے، جبکہ نماز فجر کے متعلق امام ابو حنیفہ ؒ کے علاوہ تمام فقہاء کا یہ موقف ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ طلوع شمس سے اس کی نماز باطل ہوجائے گی، کیونکہ وہ اب ایسے وقت میں داخل ہوچکا ہے جس میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے بخلاف غروب شمس کے۔ یہ حدیث امام ابو حنیفہ کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ (شرح الکرماني: 219/2)
(4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس مفہوم کی متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ احادیث علامہ طحاوی ؒ کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ امام طحاوی ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث، بچے، کافر اور حائضہ عورت کے ساتھ خاص ہے، یعنی اگر بچے کی بلوغت، کافر کے اسلام اور حائضہ عورت کی طہارت کے کچھ دیر بعد سورج طلوع یا غروب ہوا کہ اس سے پہلے ایک رکعت پڑھنے کا وقت ہوتو ان پر اس نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔ دراصل امام طحاوی ؒ اس تخصیص کے ذریعے سے اپنے مذہب کی تائید کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت ہی پڑھ سکے تو اس کی نماز فاسد ہو گی، کیونکہ اس نے اپنی نماز کی تکمیل وقت کراہت میں کی ہے۔ جب مذکورہ حدیث ان کے اختیار کردہ موقف کے خلاف تھی تو انھوں نے اس حدیث کو بچے، کافر، عورت اور مسبوق وغیرہ کے ساتھ خاص کر دیا۔ (فتح الباري:75/2)