تشریح:
(1) اس حدیث میں گزشتہ حدیث کے اعتبار سے عموم پایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں یہی حکم صرف نماز فجر اور نماز عصر کےلیے بیان ہوا ہے جبکہ اس حدیث میں پانچوں نمازوں کو اس حکم میں شامل کردیا گیا ہے، البتہ اگرالصلاة کے "الف لام"عہد کا بنائیں تو اس سے مراد فجر اور عصر ہی ہوں گی۔ اس صورت میں دونوں عنوانات کا ایک ہی مطلب ہوگا جو بظاہر تکرار ہے، چنانچہ علامہ کرمانی ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب سے مراد ہے کہ جس نے ایک رکعت جتنا وقت پالیا اور اس باب کا مطلب ہےکہ جس نے ایک رکعت کو پالیا۔ (شرح الکرماني:220/2)
(2) اس مقام پر حافظ ابن حجر ؒ نے ایک دقیق نکتہ بیان کیا ہے کہ امام بخاری ؒ جس مقام پر الفاظ حدیث کو اپنا کوئی عنوان قرار دیں اور حدیث کے الفاظ میں کوئی تبدیلی کریں تو اسی تبدیلی کے ساتھ وہ حدیث ضرور کہیں نہ کہیں موجود ہو گی، چنانچہ اس مقام پر حدیث میں (ركعة من الصلاة) کے الفاظ ہیں جبکہ عنوان میں(من الصلاة ركعة) کہا ہے تو اس تبدیلی کے ساتھ یہ حدیث بیہقی میں موجود ہے۔ اس سے احادیث کے متعلق امام بخاری ؒ کی وسعت علم کا پتہ چلتا ہے۔ (فتح الباري: 76/2)
(3) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تقاضا ہےکہ کسی نماز کی ایک رکعت پالینے سے اس کا وقت ادا پایا جاتا ہے، یعنی اگر کسی نے کسی نماز کا اتنا وقت پالیا کہ اس میں صرف ایک ہی رکعت ادا کی جاسکےتو اس نے گویا مکمل نماز کوپالیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم ادا کرنے کا وقت ملا تو اس سے وقت ادا فوت ہوجاتا ہے۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16)