Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: To recommend to be kind to one's neighbour)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اوراللہ تعالیٰ کا سورۃ نساء میں فرمان اور اللہ کی عبادت کروا ور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ ارشاد ” مختالاً فخورا “ تک ۔
6069.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت جبرئیل ؑ ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کر لیا وہ ہمسائے کو وارث بنادیں گے۔“
تشریح:
(1) اسلام میں پڑوس کی بہت اہمیت ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، عبادت گزار ہو یا فاسق و فاجر، دوست ہو یا دشمن، اپنا ہویا بیگانہ، قریبی ہو یا اجنبی، خیرخواہ ہو یا بدخواہ ہر قسم کے پڑوسی کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا حکم ہے۔ (2) پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو مشرک ہو۔ اس کا صرف ایک حق ہے۔ دوسرا وہ جو مسلمان ہو۔ اس کے دو حق ہیں: ایک پڑوسی ہونے کا دوسرا مسلمان ہونے کا، تیسرا وہ جو رشتے دار بھی ہو۔ اس کے تین حق ہیں: ایک پڑوس کا، دوسرا اسلام کا اور تیسرا رشتے داری کا۔ دور جاہلیت میں بھی لوگ ہمسائیگی کے حق ادا کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا ہے۔ (3) مذکورہ احادیث سے بھی ہمسائے کی حیثیت کا پتا چلتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جب گھر میں بکری ذبح کرتے تو اپنے ایک یہودی پڑوسی کے گھر اس کا گوشت ضرور بھیجتے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5152) ان احادیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک انصاری صحابی اپنے گھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے نکلے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص سے محو گفتگو پایا۔ وہ بیٹھ کر انتظار کرتے رہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تادیر کھڑے دیکھ کر اسے آپ پر ترس آنے لگا....۔آخر کار جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تجھے علم ہے کہ یہ کون تھے؟‘‘ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو مجھے پڑوسی کے متعلق وصیت کررہے تھے، یہاں تک کہ مجھے شک گزرا کہ وہ میرا وارث بن جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد:32/5) اگرچہ پڑوسی مالی ترکے میں وارچ نہیں ہوتا، تاہم وہ علمی جائیداد میں وراثت کا حق دار ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5792
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6015
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6015
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6015
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
اس آیت کریمہ کے ذکر کرنے کا مقصد ہمسایوں کے حقوق کی اہمیت واضح کرنا ہے۔عام طور پر ہمسائے کا اطلاق ساتھ والے گھر پر کیا جاتا ہے اور جو اس کے قریب ہو اس پر بھی ہمسائے کا اطلاق ہوتا ہے،عنوان سے یہی مراد ہے۔ان کی ہمسائیگی کا حق ہے کہ انھیں نفع پہنچائے،ان کی خیر خواہی کرے،انھیں تکلیف نہ دے،ان کے ساتھ مروت اور اخلاص سے پیش آئے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔
اوراللہ تعالیٰ کا سورۃ نساء میں فرمان اور اللہ کی عبادت کروا ور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ ارشاد ” مختالاً فخورا “ تک ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت جبرئیل ؑ ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کر لیا وہ ہمسائے کو وارث بنادیں گے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اسلام میں پڑوس کی بہت اہمیت ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، عبادت گزار ہو یا فاسق و فاجر، دوست ہو یا دشمن، اپنا ہویا بیگانہ، قریبی ہو یا اجنبی، خیرخواہ ہو یا بدخواہ ہر قسم کے پڑوسی کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا حکم ہے۔ (2) پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو مشرک ہو۔ اس کا صرف ایک حق ہے۔ دوسرا وہ جو مسلمان ہو۔ اس کے دو حق ہیں: ایک پڑوسی ہونے کا دوسرا مسلمان ہونے کا، تیسرا وہ جو رشتے دار بھی ہو۔ اس کے تین حق ہیں: ایک پڑوس کا، دوسرا اسلام کا اور تیسرا رشتے داری کا۔ دور جاہلیت میں بھی لوگ ہمسائیگی کے حق ادا کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا ہے۔ (3) مذکورہ احادیث سے بھی ہمسائے کی حیثیت کا پتا چلتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جب گھر میں بکری ذبح کرتے تو اپنے ایک یہودی پڑوسی کے گھر اس کا گوشت ضرور بھیجتے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5152) ان احادیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک انصاری صحابی اپنے گھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے نکلے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص سے محو گفتگو پایا۔ وہ بیٹھ کر انتظار کرتے رہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تادیر کھڑے دیکھ کر اسے آپ پر ترس آنے لگا....۔آخر کار جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تجھے علم ہے کہ یہ کون تھے؟‘‘ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو مجھے پڑوسی کے متعلق وصیت کررہے تھے، یہاں تک کہ مجھے شک گزرا کہ وہ میرا وارث بن جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد:32/5) اگرچہ پڑوسی مالی ترکے میں وارچ نہیں ہوتا، تاہم وہ علمی جائیداد میں وراثت کا حق دار ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو“۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا، کہاہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل ؑ مجھے اس طرح بار بار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کر دیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrates Ibn 'Umar (RA): Allah' Apostle (ﷺ) said, Gabriel (ؑ) kept on recommending me about treating the neighbors in a kind and polite manner, so much so that I thought that he would order (me) to make them (my) heirs."