تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاطعمۃ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب الرجل يتكلف الطعام لإخوانه) ’’آدمی اپنے بھائیوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، باب:34) وہاں بھی یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ انسان کو اپنے مہمان کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے خود کھانا تیار کیا تاکہ ان کی میزبانی میں کوئی کمی نہ رہ جائے کیونکہ مہمانوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے لیے موٹا تازہ بچھڑا ذبح کیا، پھر خود ہی بھون کر لائے اور مہمانوں کو پیش کیا جیسا کہ قرآن کریم میں صراحت ہے لیکن یہ تکلف اپنی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمت سے بڑھ کر تکلف کرنے کی ممانعت ہے جیسا کہ ایک روایت ہے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مہمانوں سے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا ہے تو میں تمہارے لیے ضرور تکلف کرتا۔ (مسند أحمد:5/441) بہرحال اعتدال میں رہتے ہوئے میزبانی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔