تشریح:
(1) انسان کی یہ فطرت ہے کہ جب وہ کھانے پینے کی پسندیدہ چیز دیکھتا ہے تو اسے کھانے کی اس میں خواہش پیدا ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھنے سے شہوانی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے یا کم از کم انسان اس وقت بے چینی میں ضرور مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے ایسے حالات میں بندۂ مسلم کو نگاہ بچا کر رکھنے کا حکم ہے۔ قرآن مجید میں عورتوں اور مردوں کو الگ الگ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کسی کی اچانک نظر پڑ جائے تو نگاہیں دوسری جانب پھیر لینے کا حکم ہے، چنانچہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ادھر سے نگاہیں دوسری طرف پھیر لوں۔'' (مسند أحمد:4/358) کسی کے گھر میں تاک جھانک کرنا اتنا شدید جرم ہے کہ اگر صاحب خانہ اس جرم کی پاداش میں کسی بھی چیز سے نظر باز کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔ (مسند أحمد:181/5)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیگر روایات کے پیش نظر چودہ امور کی نشاندہی کی ہے جو راستے کے حقوق سے متعلق ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ نگاہیں نیچی رکھنا۔ ٭ دوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنا۔ ٭ سلام کا جواب دینا۔ ٭ بھلے کاموں کا حکم دینا۔ ٭ برے کاموں سے روکنا۔ ٭ پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا۔ ٭ بھٹکے مسافر کو راستہ بتانا۔ ٭ چھینک کا جواب دینا۔ ٭ مظلوم کی مدد کرنا۔ ٭ سلام کو عام کرنا۔ ٭ بوجھ اٹھانے والے کا ہاتھ بٹانا۔ ٭ اچھی گفتگو کرنا۔ ٭ بکثرت ذکر الٰہی میں مصروف رہنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان امور کو تین عربی ابیات میں جمع کیا ہے۔ (فتح الباري:16/11)