تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ السلام، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، پھر اسے ثابت کرنے کے لیے مذکورہ حدیث پیش کی جس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ تو خود سلام ہے۔ ایک دوسری حدیث میں مزید صراحت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو اتنی دیر قبلہ رخ ہو کر بیٹھتے جتنی دیر آپ کو یہ کلمات پڑھنے میں لگتی ہے: ’’یا اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، اے بزرگی اور جاہ و جلال کے مالک! تیری ذات بڑی بابرکت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1335(592) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ تم یہ نہ کہو: ’’اللہ پر سلام ہو، اللہ تو خود سلام ہے، اس کے لیے سلامتی کی دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835)
(2) سلام کے معنی ہیں: ظاہری اور باطنی آفات و عیوب سے پاک اور محفوظ رہنا۔ اور سلم ایسی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ذات میں درست بھی ہو اور اس پر کسی دوسرے کا حق بھی نہ ہو، جب اس لفظ سے لفظ سلام بنتا ہے تو اس میں ازخود مبالغہ پیدا ہو جاتا ہے جیسا کہ کسی خوبصورت انسان کو کہہ دیا جائے کہ تو سراپا حسن ہے۔ اس لفظ کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو بھی سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے، انہوں نے فرمایا: سلام اللہ تعالیٰ کا مقدس نام ہے اور اہل جنت کا سلام ہے۔ (شعب الإیمان للبیھقي، رقم الحدیث:8449، وفتح الباري:17/11)