Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Saying: "Marahaba")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے حضرت فاطمہؑ سے فرمایا تھا مرحبا میری بیٹی ۔ اورام ہانی ؓنے کہا کہ میں آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا ، مرحبا ، ام ہانی ۔
6231.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کے پا آیا تو آپ نے انہیں فرمایا: ”مرحبا! تمہیں یہاں کسی قسم کی رسوائی یا ندامت نہیں ہوگی۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم قبیلہ ربیعہ کے لوگ ہیں ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کفار ہیں لہذا ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں آ سکتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسی فیصلہ کن بات بتائیں جس پر عمل کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور جو لوگ نہیں آسکے ہم انہیں بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”چار (امور کا تمہیں حکم دیتا ہوں) اور چار (سے روکتا ہوں): نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور کدو، سفید مٹکوں لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور روغنی مرتبانوں میں کچھ نہ کھاؤ پیو۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کی آمد کے موقع پر انہیں خوش آمدید کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مہمان یا معزز وفد آئے تو استقبال کے طور پر انہیں مرحبا کہنا چاہیے تاکہ انہیں اجنبیت کے بجائے اپنائیت کا احساس ہو اور وہ بے تکلفی کے انداز میں اپنا ما فی الضمیر ظاہر کر سکیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے، لہذا جو لوگ اسے اختیار کرتے ہیں، انہیں دوسروں سے خندہ پیشانی کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اپنے قول و کردار سے ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے جس سے دوسروں کو نفرت ہو اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے قریب آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5950
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6176
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6176
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6176
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
مرحبا کا لفظ رحبه سے ماخوذ ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں۔ گویا مرحبا کے معنی یہ ہیں تو تنگ و تاریک زمین میں نہیں بلکہ فراخ اور کھلی جگہ آیا ہے۔ یہاں تجھے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے حضرت فاطمہؑ سے فرمایا تھا مرحبا میری بیٹی ۔ اورام ہانی ؓنے کہا کہ میں آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا ، مرحبا ، ام ہانی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کے پا آیا تو آپ نے انہیں فرمایا: ”مرحبا! تمہیں یہاں کسی قسم کی رسوائی یا ندامت نہیں ہوگی۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم قبیلہ ربیعہ کے لوگ ہیں ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کفار ہیں لہذا ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں آ سکتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسی فیصلہ کن بات بتائیں جس پر عمل کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور جو لوگ نہیں آسکے ہم انہیں بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”چار (امور کا تمہیں حکم دیتا ہوں) اور چار (سے روکتا ہوں): نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور کدو، سفید مٹکوں لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور روغنی مرتبانوں میں کچھ نہ کھاؤ پیو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کی آمد کے موقع پر انہیں خوش آمدید کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مہمان یا معزز وفد آئے تو استقبال کے طور پر انہیں مرحبا کہنا چاہیے تاکہ انہیں اجنبیت کے بجائے اپنائیت کا احساس ہو اور وہ بے تکلفی کے انداز میں اپنا ما فی الضمیر ظاہر کر سکیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے، لہذا جو لوگ اسے اختیار کرتے ہیں، انہیں دوسروں سے خندہ پیشانی کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اپنے قول و کردار سے ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے جس سے دوسروں کو نفرت ہو اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے قریب آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں۔
ترجمۃ الباب:
سیدہ عائشہ ؓنے کہا: نبی ﷺنے سیدہ فاطمہ ؓ سے فرمایا: ”بیٹی ! خوش آمدید“ سیدہ ام ہانی ؓ نے کہا: میں نبی ﷺکے پاس آئی تو آپ نے فرمایا: ”ام ہانی! خوش آمدید“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابو التیاح یزید بن حمید نے بیان کیا، ان سے ابو حمزہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب قبیلہ عبد القیس کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مرحبا ان لوگوں کو جو آن پہنچے تو وہ ذلیل ہوئے نہ شرمندہ (خوشی سے مسلمان ہو گئے ورنہ مارے جاتے شرمندہ ہوتے) انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم قبیلہ ربیع کی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر لوگ حائل ہیں اس لئے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں (جن میں لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی) آپ کچھ ايسی جچی تلی بات بتا ديں جس پر عمل کرنے سے ہم جنت ميں داخل ہو جائیں اور جو لوگ نہیں آسکے ہیں انہیں بھی اس کی دعوت پہنچائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چار چارچیزیں ہیں۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کا پانچواں حصہ (بیت المال کو) ادا کرو اور دباء، حنتم، نقیر اور مزفت میں نہ پیو۔
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث میں لفظ مرحبا بزبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مذکور ہے، دباء، کدو کی تو نبی، حنتم سبز لاکھی مرتبان، نقیر لکڑی کے کریدے ہوئے برتن، مزفت رال لگے ہوئے برتنوں کو کہا گیا ہے۔ یہ برتن عموماً شراب رکھنے کے لئے مستعمل تھے جن میں نشہ اور بڑھ جاتا تھا، اس لئے شراب کی حرمت کے ساتھ ان کو ان برتنوں سے بھی بند کر دیا گیا۔ ایسے حالات آج بھی ہوں تو یہ برتن کام میںلانا منع ہیں ورنہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : When the delegation of 'Abdul Qais came to the Prophet, he said, "Welcome, O the delegation who have come! Neither you will have disgrace, nor you will regret." They said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We are a group from the tribe of Ar-Rabi'a, and between you and us there is the tribe of Mudar and we cannot come to you except in the sacred months. So please order us to do something good (religious deeds) so that we may enter Paradise by doing that, and also that we may order our people who are behind us (whom we have left behind at home) to follow it." He said, "Four and four:" offer prayers perfectly , pay the Zakat, (obligatory charity), fast the month of Ramadan, and give one-fifth of the war booty (in Allah's cause), and do not drink in (containers called) Ad-Duba,' Al-Hantam, An-Naqir and Al-Muzaffat."