تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے كيف أصبح کے الفاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کی اور انھوں نے بحمدلله بارئا کہہ کر جواب دیا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دو آدمی جب ملاقات کریں تو ایک دوسرے سے کہيں کیف أصبحت (تونے صبح کیسے کی؟) البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الادب المفرد کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: کیف أصبحت (آپ نے صبح کیسے کی؟) تو آپ نے فرمایا: ’’میں خیریت سے ہوں۔‘‘ (فتح الباري:171/11) لیکن اس میں معانقے کا ذکر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ عربوں کی عادت سے اس با ت کو اخذ کیا گیا ہو، چنانچہ وہ معانقہ کرنے کے بعد کیف أصبحت کے الفاظ سے مزاج پرسی کرتے تھے۔ واللہ أعلم
(2) بہرحال معانقے کا ثبوت دیگر احادیث سے ملتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت اپنی چار پائی پر تشریف فرما تھے تو آپ نے مجھ سے معانقہ فرمایا۔ (مسند أحمد:162/5) اسی طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ فرمایا اور انھیں بوسہ دیا۔ (جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث:2732) لیکن یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں۔ (فتح الباري:71/11)