تشریح:
(1) انسان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور انجام آخرت سے بے فکر ہو کر نفسانی خواہشات اور دنیا کی فانی لذتوں ہی کو اپنا مقصد بنا لے اور ہمیشہ کے لیے کوشاں رہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا کے متعلق تعلیم یہ ہے کہ اس میں پردیسی یا راستہ چلتے مسافر کی طرح رہا جائے۔ کوئی مسافر بھی اپنی راہ گزر کو اپنا اصل وطن نہیں سمجھتا اور وہاں رہنے کے لیے کوئی لمبے چوڑے انتظامات نہیں کرتا۔ اسی طرح مومن کو چاہیے کہ وہ اس دنیا کو اپنا اصل وطن خیال نہ کرے اور ایسی فکر نہ کرے گویا یہاں اس نے ہمیشہ رہنا ہے بلکہ موت کے بعد والی زندگی کو اصل اور مستقل زندگی یقین کرتے ہوئے اس کی فکر اور تیاری میں اس طرح لگا رہے گویا وہ زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے جو مضمون حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت کے حوالے سے بیان کیا، وہ ایک مرفوع روایت میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت خیال کرو: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 306/4) مطلب یہ ہے کہ انسان کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، لہذا اسے چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے کچھ کام کرنے کا موقع عطا فرمائے تو اسے غنیمت خیال کرتے ہوئے اخروی کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہو اس وقت کرے، کیا خبر کہ آئندہ اسے موقع نہ مل سکے۔ واللہ المستعان