تشریح:
(1) گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، بندۂ مومن کو چاہیے کہ اس سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دے۔ چھوٹے اور بڑے گناہ میں بس یہ فرق ہے کہ ایک زیادہ زہریلا سانپ ہے اور دوسرا کم زہریلا ہے۔ جس طرح ہم کم زہریلے سانپ سے بھی بھاگتے ہیں، اسی طرح چھوٹے گناہوں سے بھی ہر حال میں بچنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ گناہ کے مقابلے میں صغیرہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے بھی ناراض ہی ہوتا ہے، نیز آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہو گی، اس اعتبار سے کوئی بھی گناہ ہلکا نہیں ہے۔
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ! خود کو ان گناہوں سے بچانے کی خاص کوشش کرو جنہیں عام طور پر حقیر اور معمولی خیال کیا جاتا ہے کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بھی باز پرس ہو گی۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4243) اگرچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب فرمایا ہے لیکن در حقیقت یہ تنبیہ سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے۔ ذرا سوچیے! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو احتیاط اور فکر کی ضرورت ہے تو ہمارے لیے اس میں غفلت اور کوتاہی کی کیا گنجائش ہے۔ واللہ المستعان
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی گناہوں کی سنگینی کو ایک تمثیلی انداز میں بیان فرمایا ہے: ’’تم معمولی گناہوں سے بھی بچتے رہا کرو، ان گناہوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے جس نے کسی وادی میں پڑاؤ کیا، ایک آدمی ایندھن کے لیے جنگل سے لکڑی اٹھا لایا، دوسرا بھی ایک لکڑی لے آیا حتی کہ اتنا ایندھن جمع ہو گیا جس سے ان کی روٹیاں پک سکتی تھیں۔ یقیناً معمولی گناہ بھی انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (مسند أحمد: 331/5)