قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ (بَابُ إِذَا حَلَفَ أَنْ لاَ يَأْتَدِمَ، فَأَكَلَ تَمْرًا بِخُبْزٍ، وَمَا يَكُونُ مِنَ الأُدْمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

6688. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَتْ نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتْ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبْتُ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقُوا وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنْ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ حَتَّى دَخَلَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ قَالَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا

مترجم:

6688.

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے سیدہ ام سلیم ؓ سے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی آواز کمزور سنائی دی ہے۔ مجھے اس میں بھوک کے اثرات معلوم ہوتے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں۔ پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک طرف انہیں لپیٹ دیا، پھر وہ دے کر انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ میں وہ روٹیاں لے کر گیا تو رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تمہیں ابو طلحہٰ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کہا:جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کہا جو آپ کے ساتھ تھے: ”اٹھو“ چنانچہ وہ چلے اور میں ان کے آگے آگے چلا حتیٰ کہ ابو طلحہ ؓ کے پاس آیا اور انہیں بتایا (کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں) ابو طلحہ ؓ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس تو کوئی ایسا کھانا نہیں ہے جو سب کو پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ علم ہے۔ پھر حضرت طلحہ ؓ باہر نکلے اور رسول اللہ ﷺ سے ملے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور ابو طلحہ ؓ گھر کی طرف بڑھے حتیٰ کہ اندر داخل ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ۔ سیدہ ام سلیم ؓ وہ روٹیاں لے کر آئیں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ان روٹیوں کے ٹکڑے کر دیے گئے اور حضرت ام سلیم ؓ نے اپنی کپی سے گھی نچوڑا اور ان میں ملایا۔ گویا یہی سالن تھا اسکے بعد رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا پھر فرمایا: ”دس دس آدمیوں کو اندر بلاؤ۔“ انہیں بلایا گیا۔ اس طرح سب لوگوں نے کھانا کھایا اور خوب سیر ہو گئے جبکہ وہ ستر (70) یااسی(80) آدمی تھے۔