تشریح:
(1) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کے ذمے نذر کیا تھی؟ اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ وہ روزے کی نذر تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میری والدہ اس حالت میں فوت ہوئی ہے کہ اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں تو آپ نے فرمایا: ’‘ہاں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: (154) 1148) لیکن اس روایت میں آدمی کی تعیین کے متعلق یقین نہیں کہ وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ والدہ کی نذر مالی صدقے کے متعلق تھی جیسا کہ موطا امام مالک کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت میں نذر کی صراحت نہیں ہے۔ (الموطأ لإمام مالك، الأقضیة، حدیث: 1515) ظاہر روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نذر مال کے متعلق تھی۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ میت کے ذمے واجب حقوق کی ادائیگی ضروری ہے۔ جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ اگر کوئی مر جائے اور اس کے ذمے مالی نذر ہو تو اس کے ترکے سے اس کا پورا کرنا ضروری ہے، اگرچہ مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو، ہاں اگر نذر مرض موت میں مانی تھی تو ایک تہائی مال سے اس کی نذر پوری کی جا سکے گی۔ واللہ أعلم (فتح الباری: 713/11)