تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مد کی مقدار دو رطل سے کم تھی۔ ہشام کے دور میں کمی کو پورا کر کے مد کی مقدار دو رطل کے برابر کر دی گئی، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں دو گنا اضافہ کر کے مد کی مقدار چار رطل کر دی گئی۔ اگر اس میں ایک تہائی جمع کیا جائے تو عہد نبوی کے صاع کے برابر ہو جاتا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع کی مقدار 51/3 رطل تھی۔ جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں رائج مد، یعنی چار رطل میں مزید ایک تہائی مد، یعنی 1/1/3 رطل کا اضافہ کیا جائے تو صاع نبوی کی مقدار کے برابر ہو جاتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع آٹھ رطل کا ہو تو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک صاع تمہارے آج کے مد کے حساب سے دو مد کا تھا پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں اضافہ ہو گیا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کہا بلکہ یوں کہا ہے کہ عہد نبوی میں جو صاع تھا وہ تمہارے آج کے مد کے حساب سے ایک مد اور تہائی مد، یعنی 1/1/3(ایک مد اور تہائی) مد کے برابر تھا۔
(2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک صاع 51/3 رطل کا تھا، آٹھ رطل کا نہیں تھا بصورت دیگر مذکورہ حدیث میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان صحیح نہیں ہو گا۔