تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو یہاں مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی میت لائی جاتی اور اس کے ذمے قرض ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت فرماتے: ’’کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے؟‘‘ اگر بتایا جاتا کہ اس نے مال چھوڑا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھتے بصورت دیگر فرماتے: ’’تم خود اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کا دروازہ کھول دیا تو آپ فرماتے: ’’میں اہل ایمان کا خود ان سے زیادہ حق دار ہوں۔ ان میں سے اگر کوئی مقروض فوت ہو اور ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑا ہو تو ہم پر اس کی ادائیگی ہے اور جس نے مال چھوڑا ہے تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الکفالة، حدیث: 2298) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں دنیا و آخرت میں اہل ایمان سے زیادہ قربت رکھنے والا ہوں، اگر چاہو تو یہ پڑھ لو: ’’بلاشبہ نبی اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ خیرخواہ ہے، لہذا اگر کوئی مومن فوت ہو جائے اور اس کا مال ہو تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے، وہ جو بھی ہوں اور اگر قرض اور بال بچے چھوڑ گیا ہے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا ضامن ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستقراض، حدیث: 2399)
(2) غریب، تنگدست میت کا قرض اتارنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے جو آپ اپنے مال خالص سے ادا کرتے تھے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپ بیت المال سے دیتے تھے، ان کے ہاں یہ ذمہ داری اسلامی حکومت کی ہے۔ واللہ أعلم