تشریح:
(1) اس حدیث سے حجب حرمان کا دوسرا اصول معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہو جاتا ہے، مثلاً: بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہیں ملتا اور پوتا موجود ہوتو پڑپوتا محروم ہو جاتا ہے۔
(2) اگر میت، خاوند، باپ، بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑ جائے تو خاوند کو 1/4، باپ کو1/(6 )، بیٹی کو 1/2 دیا جائے گا اور باقی پوتے اور پوتی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ پوتے کو پوتی سے دوگنا ملے گا۔
(3) یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ: عصر حاضر میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے اور پوتی کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ ان کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، چنانچہ اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ، نیز شیعہ، زیدیہ، امامیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمہ وفقہاء کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں کہ دادا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے کی اولاد، یعنی پوتوں کو اس کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈی نینس (ordinance) جاری کیا جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو لینے کی حق دار ہوگی جو ان کے باپ یا ماں کو ملنا تھا اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔ پاکستان میں اس قانون کے خلاف شریعت ہونے کے متعلق بہت بڑی اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطۂ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء 4: 11) اس آیت کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کہ معنی میں استعمال ہوا ہے۔عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے: ٭حقیقی جو بلا واسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی وغیرہ۔ ٭مجازی جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔ بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں کیونکہ نسب باپ سے چلتا ہے، اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد میں شامل ہی نہیں کہ انھیں اولاد سمجھ کر حصہ دیا جائے، نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینے جائز نہیں ہیں، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے ج اسکتے، لہٰذا آیت کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے اور پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔ اس کے متعلق امام جصاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’امت کا اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے، اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے، نیز اس امر میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے، بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی اولاد نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔‘‘ (احکام القرآن:96/2)
(3) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جومیت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں صرف بیٹا وارث ہوگا اور پوتا محروم رہے گا، چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے جس کی تشریح ہم پہلے کر آئے ہیں۔
(4) واضح رہے کہ شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الاقرب فالاقرب كے قانون كو پسند كيا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتے دار چھوڑ جائیں۔‘‘ (النساء 4: 33) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتے داروں کے فقرواحتیاج اور ان کی بے چارگی کو سرے سے بنیاد ہی نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق یہ تأثر دے کر جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال ودولت کی زیادہ ضرورت مند ہے، اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حق دار قرار دیا جانا چاہیے تھا جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی عدم کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے، البتہ اسلام نے اس جذباتی مسئلے کا حل یوں پیش کیا ہے کہ مرنے والا اپنے یتیم پوتے، پوتیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکے سے 1/3 حصے کی وصیت کر جائے۔ اگر یتیم پوتے پوتیوں کے موجودگی میں دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکم وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس وصیت کو ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر ضرورت مند یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں اسے نافذ قرار دے، ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعۂ ہبہ جائیداد سے کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔ واللہ أعلم