تشریح:
(1) یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پیش آیا کیونکہ انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا تھا۔ اس سے پہلے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں کے امیر تھے۔ انھیں معزول کر کے ان کی جگہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی تعیناتی عمل میں آئی تھی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ مذکورہ فتویٰ دینے میں سلمان بن ربیعہ باہلی بھی شریک تھے جنھیں جنگی گھوڑوں کے متعلق بہت مہارت تھی، اس لیے انھیں سلمان بن الخیل کہا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتوے کے بعد دونوں حضرات نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔(فتح الباري:32/12)
(2) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے فتوے کی بنیاد قرآن کی ظاہری آیات تھیں کیونکہ قرآن کریم میں ایک بیٹی کے متعلق نصف حصہ ملنے کی صراحت موجود ہے۔ اسی طرح ایک بہن کو نصف ملنے کی بھی وضاحت ہے۔ جب میت کا ترکہ پورا تقسیم ہوگیا تو بہن کے لیے کچھ نہین بچا، اس لیے وہ محروم ہوگئی، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو زیادہ سےزیادہ دو تہائی دیا ہے، جب ایک لڑکی کو نصف دیا تو دوتہائی سے1/6 باقی بچا جو دوتہائی پورا کرنے کے لیے پوتی کو دیا جائے گا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنایا جائے۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6742) اس لیے دوتہائی سے باقی ماندہ1/3 بہن کو مل جائے گا۔ اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے بھی ہوتی ہے، جس کی طرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا ہے۔ واللہ أعلم