تشریح:
(1) وہ عصبہ جو جہت کے اعتبار سے برابر ہوں وہ باقی ترکے میں برابر کے شریک ہوں گے جیسا کہ مذکورہ بالا صورت میں خاوند اور مادری بھائی کو دینے کے بعد باقی ایک تہائی میں پھر دونوں برابر کے شریک ہیں لیکن کچھ حضرات کہتے ہیں کہ باقی مادری بھائی کو دیا جائے کیونکہ اس میں دو قرابتیں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کے لیے یہ احادیث پیش کی ہیں کہ عصبہ اگر جہت میں برابر ہیں تو باقی مال برابر ہی تقسیم کریں گے۔ (فتح الباري:35/12)
(2) دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دو قرابتیں رکھنے والے وارث کا حق بتایا ہے کہ اسے دونوں قرابتوں کے لحاظ سے حصہ دیا جائے گا یا اسے ایک قرابت کے اعتبار سے حق دار ٹھہرایا جائے گا؟ علم فرائض میں دو قرابتیں رکھنے والے کی تین قسمیں حسب ذیل ہیں: ٭دونوں قرابتیں مقررہ حصے کے اعتبار سے ہوں گی، مثلاً: ایک آدمی اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرتا ہے اور ان سے ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے جب وہ لڑکا فوت ہو جائے تو اس کی دادی میں دو قرابتیں جمع ہیں، باپ کی طرف سے دادی اور ماں کی طرف سے نانی ہے۔ اس صورت میں صرف ایک قرابت کا لحاظ ہوگا۔ ٭دونوں قرابتیں عصبہ ہونے کی حیثیت سے ہوں، مثلاً: ایک عورت اپنے چچا زاد سے شادی کرتی ہے اور ایک بیٹا چھوڑ کر فوت ہو جاتی ہے تو اس کا بیٹا دو قرابتوں کا حامل ہے: ایک تو بیٹا ہونے کی حیثیت سے عصبہ ہے اور ایک وہ چچا زاد کا بیٹا بھی ہے، اس صورت میں زیادہ قوت والی جہت کا اعتبار ہوگا دوسری جہت کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا۔ ٭ایک قرابت مقررہ حصے کے اعتبار سے اور دوسری عصبہ ہونے کے لحاظ سے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان میں ہے: تو اس صورت میں دونوں جہتوں کا اعتبار ہوگا کیونکہ دونوں ہی وراثت کی حق دار بناتی ہیں، اگر کوئی رکاوٹ کھڑی ہو جائے تو الگ بات ہے۔
(3) واضح رہے کہ مسلمانوں کے ہاں جو نکاح ہوتے ہیں ان میں درج ذیل صورت میں دو قرابتیں ہو سکتی ہیں: ٭میت کا بیٹا جبکہ وہ میت کے چچا کے بیٹے کا بیٹا بھی ہو۔ ٭مادری بھائی جبکہ وہ چچا زاد بھی ہو۔ ٭خاوند جبکہ وہ چچا کا بیٹا بھی ہو۔ ٭بیوی جبکہ وہ میت کے چچا کی بیٹی ہو۔ شارحین میں سے کسی نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے اس مقصود کو بیان نہیں فرمایا۔ هذا مما فتح الله علي بمنه و كرمه و فضله وهو المستعان و عليه التكلان