تشریح:
(1)امام بخارى ؒ نے مذکورہ عنوان کو ثابت کرنے کے لیے تعامل پیش کیا کہ رسول اللہ ﷺ فارغ اوقات میں اپنے گھر اہل خانہ کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے مگر جماعت کے وقت انھیں چھوڑ کر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ واضح رہے کہ اہل خانہ کی خدمت میں رسول اللہ ﷺ کے ذاتی کام اور معمولات بھی شامل ہیں کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے کہ آپ اپنے کپڑوں کی صفائی بھی کرلیتے تھے، اپنی بکری کا دودھ بھی دوہ لیتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنا کپڑا سی لیتے، جوتا مرمت کر لیتے اور ڈول درست کر لیتے تھے۔ امام حاکم نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی عورت یا خادم کو زدو کوب نہیں کیا، نیز معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے گھرمیں تواضع اختیار کرنی چاہیے اور اہل خانہ کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تالیف الادب المفرد میں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’آدمی اپنے گھر میں کس انداز سے رہے؟‘‘ ان احادیث و آثار کے پیش نظر علماء حضرات کو چاہیے کہ وہ اسوۂ رسول پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر میں گھریلو مصروفیات میں شریک ہوں کیونکہ ہمارے اسلاف اپنے کام خود سر انجام دیتے تھے اور سلف صالحین کا یہی معمول رہا ہے۔ (والله الموفق وهو يهدي من يشاء إلى سواء السبيل)