تشریح:
(1) وراثت کے لیے ملت کا اتحاد شرط ہے اور دین کا اختلاف محرومی کا باعث ہے، اس لیے کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوگا۔ اس کی صورت اس طرح ہے کہ ایک مسلمان فوت ہوا، اس کے دو بیٹے تھے، ان میں ایک مسلمان اور دوسرا کافر، تو کافر مسلمان کی جائیداد کا وارث نہیں ہوگا اگرچہ تقسیم ترکہ سے پہلے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کافروں کو مومنوں کے خلاف ہرگز کوئی راستہ نہیں دےگا۔‘‘ (النساء 4: 141) اگر کافر کو مسلمان کا وارث بنایا جائے تو اسے مسلمان پر راہ مل جاتی ہے جو قرآن کے خلاف ہے۔
(2) بہرحال کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا اس امر پر تمام علماء کا اتفاق ہے، لیکن کافر کا وارث مسلمان بننے کے متعلق اختلاف ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان بیٹے کو اس کے یہودی باپ کا وارث بنایا تھا، لیکن ایسا کرنا صریح نص کے خلاف ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں صراحت ہے۔ اس کی موجودگی میں قیاس وغیرہ کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ أعلم