تشریح:
(1) شرابی کو کوڑے لگائے جائیں یا ویسے ہی مارا جائے، اس کے متعلق تین موقف ہیں۔ راجح مذہب یہ ہے کہ اسے کوڑے بھی لگائے جا سکتے ہیں اور چھڑیوں اور جوتوں سے بھی اس کی مرمت کی جا سکتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اسے کوڑے ہی مارے جائیں۔ تیسرا یہ ہے کہ صرف چھڑیوں اور جوتوں سے مارا جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتوں اور چھڑیوں پر ہی اکتفا کیا اور اس کا نسخ ثابت نہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کوڑے لگانا ثابت ہے، لہٰذا دونوں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بعض حضرات نے ایک درمیانی راستہ نکالا ہے کہ جو شراب نوشی کے عادی مجرم ہوں انھین کوڑوں سے سزا دی جائے اور کمزوروں کے لیے کپڑوں، جوتوں اور چھڑیوں سے مارنے کی سزا کافی ہے اور ان کے علاوہ دوسروں کے لیے حسب حال جو مناسب ہو اسے استعمال کیا جائے۔ (فتح الباري: 81/12)
(2) واضح رہے کہ جلد کا لفظ جلد، یعنی کھال سے ماخوذ ہے۔ اس سے مراد ایسی مار ہے جس کا اثر جلد تک رہے ایسی مار جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑ جائے، شریعت کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ سزا سے زیادہ اسے عار دلانا اور شرمندہ کرنا مقصود ہے۔ واللہ أعلم