تشریح:
(1) جب کوئی اپنے جرم کی سزا بھگت لے تو اسے برا بھلا کہنا یا اس پر لعنت کرنا درست نہیں بلکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحم کی دعا کرو۔‘‘ اور مارنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے شرمسار کرو تو لوگوں نے اسے کہا تو اللہ سے نہیں ڈرتا، تجھے اس کے عذاب سے خوف نہیں آتا، تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیا نہیں آتی، اسے ملامت کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔‘‘ (سنن أبي داود، الحدود، حدیث:4478)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شارح صحیح بخاری ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ معین شخص پر لعنت کرنا مطلق طور پر منع ہے، البتہ نام لیے بغیر برا کام کرنے پر لعنت کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ وہ باز آجائے، البتہ نام لے کر لعنت کرنا اس کے لیے باعث اذیت ہے اور مسلمان کو اذیت پہنچانا جائز نہیں۔ معین شخص پر لعنت کرنا اس لیے بھی منع ہے کہ ایسا کرنے سے وہ گنا ہ پر ڈٹ جائے گا اور توبہ سے مایوس ہوکر اس گندے کام پر دلیر ہوگا۔ بعض حضرات نے نام لے کر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے لیکن ان کا موقف راجح نہیں۔ (فتح الباري: 93/12) واللہ أعلم