تشریح:
(1) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ تعزیر کی زیادہ سے زیادہ مقدار دس کوڑے ہیں۔ کوڑا بھی اتنا سخت نہ ہو کہ پڑتے ہی جسم کا چمڑا ادھڑ جائے اور نہ اتنا نرم ہوکہ اسے سزا خیال نہ کرے۔ مارنے والے کو بھی میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ مرد کو یہ سزا کھڑا کرکے اور عورت کو بٹھا کر دی جائے۔ مرد کا جسم ننگا ہو تو بھی ٹھیک ہے مگر عورت کا جسم ڈھانپا ہوا ہونا چاہیے، البتہ بدن پر اتنا موٹا کپڑا نہ ہو جو سزا کا اثر کم یا بالکل ہی ختم کر دے۔
(2) بعض ائمہ کرام کے نزدیک دس کوڑوں سے زیادہ بھی تعزیر لگائی جا سکتی ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ حدیث کے مطابق دس کوڑوں سے زیادہ تعزیر نہیں ہے۔
(3) ان احادیث سے تعزیر کا وجوب نہیں بلکہ جواز ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض معاملات کی اطلاع دی گئی جو قابل سزا تھے لیکن آپ نے انھیں کچھ نہ کہا، مثلاً: ایک شخص نے ماہ رمضان میں بحالت روزہ بیوی سے جماع کر لیا تو آپ نے کفارے کے علاوہ اسے کوئی دوسری بدنی سزا نہ دی، نیز ایک شخص نے ایک عورت سے جماع کے علاوہ سب کچھ کیا لیکن آپ نے اسے صرف توبہ واستغفار کی تلقین کی، اس کے علاوہ اسے کوئی سزا نہ دی۔
(4) تعزیر کئی طرح سے ہو سکتی ہے، مثلاً: قید کرنا، جلا وطن کرنا اور سلام وکلام چھوڑ دینا وغیرہ، ان تمام قسموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل میں لائے۔