تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ تمھارے ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا: ’’کیا تم لوگ قسم اٹھا کر اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنو گے؟‘‘ انھوں نے کہا: ہم کس طرح قسم اٹھائیں جبکہ ہم وہاں موجود نہیں تھے اور نہ ہم نے کچھ دیکھا ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر وہ پچاس قسمیں اٹھا کر تم سے خود کو بری کرلیں۔‘‘ انھوں نے کہا: ہم کافروں کی قسموں کا کیسے اعتبار کریں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کر دی۔ (صحیح البخاري، الجزیة، حدیث:3173) مقصد یہ ہے کہ جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایسے معاملات میں بیت المال سے دیت ادا کر دی جائے۔ جب بیت المال نہ ہو تو حکومت اپنے خزانے سے مقتول کا خون بہا ادا کر دے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قسامت میں قصاص کے بجائے دیت دینے پر فیصلہ ہوگا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وضاحت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ قسامت میں قسم لینے کا آغاز مدعی علیہ سے کیا جائے گا جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق پہلے مدعی سے دلیل کا مطالبہ کیا جائے، اگر اس کے پاس دلیل نہ ہو تو انھیں پچاس قسمیں اٹھانے کا کہا جائے۔ اگر وہ قسمیں نہ اٹھائیں تو مدعی علیہ سے قسم لی جائے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قاتل پر دوگواہ پیش کرو تو اسے تمھارے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم گواہ کہاں سے لائیں مقتول تو یہودیوں کے دروازے کے پاس برآمد ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم پچاس قسمیں اٹھاؤ کہ ہمارے آدمی کو فلاں آدمی نے قتل کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! جس بات کا ہمیں یقین نہیں ہم اس کے متعلق قسم کیسے اٹھائیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر یہودی پچاس قسمیں اٹھا کر اپنے الزام سے بری ہو جائیں گے۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم یہودیوں سے کیوں قسمیں لیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا نمٹانے کے لیے اپنے پاس سے دیت ادا کر دی۔ (سنن النسائي، القسامة، حدیث:4724) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہاں تو مسلمان نہیں رہتے جو ہمارے حق میں گواہی دیں، وہاں تو یہودی بستے ہیں جو اس سے بھی بڑے کام پر جرأت کر سکتے ہیں، یعنی جھوٹی قسم اٹھا سکتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4524)