تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک صرف یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا منکر ہو یا متعدد الہٰوں کا قائل ہو بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے اقرار کے ساتھ بھی آدمی شرک سے آلودہ ہوجاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔‘‘ (یوسف12: 106)
(2) مشرکین مکہ میں یہ اقرار موجود تھا جیسا کہ حج کے موقع پر ان کے تلبیے سےمعلوم ہوتا ہے، وہ یوں کہتے تھے: ’’اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے اور وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2815(1185) آج بھی یہ بات بڑی شدت سے پائی جاتی ہے کہ لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدومد سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، اسی قسم کے عقیدے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اس سے پہلے کی کوئی الہامی کتاب یاعلمی روایت میرےپاس لاؤ،اگرتم سچے ہو۔‘‘ (الأحقاف46: 4) یعنی کیا تم کسی الہامی کتاب یا علمی روایت میں یہ بات دکھا سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو دے رکھے ہیں؟
(3) دور حاضر میں قبر پرستوں اور پیر پرستوں کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کے لیے نذرونیاز اور منت مانتے ہیں، بیماری اور مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، انھیں برملا حاجت روا اور مشکل کشا کہا جاتا ہے۔ ان کی قبروں کا طواف ہوتا ہے، یہ سب شرک ہے اگرچہ اپنے ایمان کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ اس قسم کا ظاہری ایمان قیامت کے دن کچھ کام نہیں آئے گا۔ مشرکین مکہ بھی اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے تھے، زمین و آسمان کا خالق ومالک اسی کو سمجھتے تھے مگر غیر اللہ کی عبادت اور ان کی انتہائی تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرک قرار دیا ہے۔
(4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان اگرچہ عربی تھی لیکن بعض اوقات انھیں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آ جاتی تھی، افسوس کہ آج مسلمانوں میں بھی ایک ایسا گروہ موجود ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بے نیاز ہو کر محض لغت کے سہارے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی آیت کے مفہوم میں دشواری پیش آ سکتی ہے تو ہم عجمی لوگ لغت کے سہارے قرآن کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ دراصل یہ منصب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور اپنے عمل وکردار اور گفتار سے اس کی تعظیم کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے متعلق سمجھ عطا فرمائے۔