تشریح:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آیت کریمہ میں ذکر کردہ ظلم کو عموم پر محمول کیا، اس لیے وہ پریشان ہوئے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس طرح کی کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں فرمایا کیونکہ ان کی یہ تاویل ظاہر اور لغت عرب کے اعتبار سے واضح تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آیت کریمہ میں ظلم سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق کمی بیشی کرنا ہے، پھر اس مفہوم کی تائید کے لیے قرآن مجید کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں لفظ ظلم اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (فتح الباري:380/12)