تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اپنے عنوان کی دلیل اس لیے بنایا ہے کہ ایسی صفات کا حامل عام طور پر ایک عجمی حکمران ہوسکتا ہے جو نیا نیا مسلمان ہوا ہو جسے ابھی دین کے متعلق پوری معلومات نہ ہوں۔ اس قسم کے انسان کے لیے بدعات کا ارتکاب بعید نہیں۔ ایسے حکمران خود پسندی اور خود فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جب ایسے حکمران کی اطاعت ضروری ہے تو اس کی اقتدا بھی درست ہونی چاہیے۔ جب اس قسم کا حاکم قابل اطاعت ہے تو اس کی امامت میں نماز بھی درست ہوگی۔ (فتح الباري:246/2)
(2) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث کے متعلق ابو ذر ؓ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ وہ ربذہ مقام پر اس وقت پہنچے جب جماعت ہو رہی تھی اور ایک غلام امامت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا، اسے نماز کے دوران میں کہا گیا کہ یہ حضرت ابو ذر ؓ عنہ تشریف لاچکے ہیں، وہ پیچھے ہٹنے لگا تو آپ نے فرمایا: مجھے میرے محبوب نے وصیت کی تھی کہ اپنے امیر کی بات سنوں اور اس کی اطاعت کروں اگرچہ کٹی ہوئی ناک والا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ (فتح الباري:242/2)
(3) واضح رہے کہ بدعت اگر کفرو شرک تک پہنچ جائے تو اس کا حکم شرک ہی کا ہے جس طرح مشرک کی اقتدا جائز نہیں، اسی طرح بدعت مکفرہ کا حامل انسان بھی امامت کے اہل نہیں۔ اگر وہ بدعت مکفرہ کا حامل نہیں تو بوقت ضرورت کبھی اس کی اقتدا میں نماز پڑھ لی جائے تو جائز ہوگا۔ اس کا حکم فاسق کا ہے اور اس کے پیچھے نماز صحیح ہے، البتہ بدعتی اور فتنہ پرور کو مستقل طور پر امام نہیں بنانا چاہیے۔ والله اعلم۔