تشریح:
1۔ کسی کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرنا کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کر دے، نکاح شغار کہلاتا ہے، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں شغار کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے میں اپنی بیٹی کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں یا کہے کہ تو اپنی بہن کی شادی مجھ سے کر دے، میں اپنی بہن کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں۔ (مسند أحمد: 439/2) شریعت میں ایسا نکاح کرنا حرام ہے بلکہ اسلام اس قسم کے نکاح کو تسلیم نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’نکاح شغار اسلام میں نہیں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465(1415) لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح شغار اپنے اصل کے اعتبار سے مشروع ہے لیکن ایک خاص وصف کی بنا پر فاسد ہے کیونکہ اس میں حق مہر نہیں ہوتا، لہذا مہرمثل واجب قرار دے کر اسے بحال رکھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں پر تین اعتراض کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ©۔اس طرح کے نکاح کو حیلے کے ذریعے سے جائز قرار دینا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح سے منع فرمایا ہے اور آپ کی نہی منع کردہ چیز کے فساد کا تقاضا کرتی ہے بلکہ اسلام نے تو اس کے وجود سے انکار کیا ہے۔
©۔ان حضرات کے اقوال میں تناقض ہے۔ اسلام میں جس طرح شغار منع ہے، اسی طرح متعہ بھی ممنوع ہے، لہذا ان دونوں کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے لیکن یہ لوگ حیلے سے شغار کو جائز قراردیتے ہیں لیکن متعے کو حیلے سے جائز قرار نہیں دیتے، یہ واضح تضاد ہے۔ ©۔خود ان حضرات کے اقوال میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اکثر کے نزدیک نکاح شغار جائز اور متعہ ناجائز ہے لیکن ان میں سے بعض کے نزدیک شغار اور متعہ دونوں ہی جائز ہیں، البتہ شرط باطل ہے۔
2۔ہمارے رجحان کے مطابق متعے اور شغار کی ممانعت یکساں طور پر احادیث سے ثابت ہے بلکہ نکاح متعہ تو بعض حالات میں حلال تھا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا۔ اب متعہ بھی قیامت تک کے لیے حرام ہے۔
3۔نکاح شغار کی ممانعت مہر کے نہ ہونے کی بنا پر نہیں کہ مہر مثل سے اسے برقرار رکھا جاسکے گا بلکہ باہمی شرط لگانے اور تبادلے کی وجہ سے حرام ہے۔اس میں معاشرتی خرابی یہ ہے کہ اگر ایک آدمی دوسرے کی بیٹی چھوڑدیتا ہے تو دوسرا بھی اس کی بیٹی کوچھوڑ دے گا۔اس میں اگرحق مہر رکھ بھی دیا جائے تب بھی حرام ہے جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمان نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کردیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے مروان بن الحکم کی طرف ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان جدائی کاحکم بھیج دیا۔اس مکتوب میں یہ بھی تھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔(سنن أبي داود، النکاح، حدیث 2075) اس نکاح میں حق مہر بھی ادا کردیا گیا تھا اس کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ختم کردیا،لہذا اس قسم کے نکاح کو کسی حیلے کے ذریعے دے جائز قراردینا شریعت کے ضابطے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے۔
4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بروقت اس قسم کے حیلوں سے آگاہ کرکے امت کو خبردار کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ ان میں گرفتار ہوجائے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات پر کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ امر واقعی یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک نکاح شغار اور نکاھ موقت جائز ہے،چنانچہ شرح وقایہ میں ہے:"بیع توفاسد شرطوں سے باطل ہوجاتی ہے لیکن نکاح میں فاسد شرائط مؤثر نہیں ہوتیں،لہذا شغار اور نکاح موقت دونوں جائز ہیں۔"(شرح وقایة، کتاب النکاح)