تشریح:
1۔اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں فرمایا، گویا یہ پہلے عنوان کے لیے فصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث کی مناسبت پہلے باب سے ہوگی جو بالکل واضح ہے کہ جھوٹ یا جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر حاکم نے جو فیصلہ کیا ہے اگرحق لینے والا جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں کہ بلکہ کسی اور کا ہے توعدالت کے فیصلے سے یہ حق اس کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اسے وہ اپنے لیے آگ کا ٹکڑا خیال کرے کیونکہ عدالت کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہیں کر سکتا۔
2۔دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کے سہاروں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی بنیاد ایک مشہور اختلافی مسئلے پر ہے کہ جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یا وہ صرف ظاہری اعتبار سے ہے باطنی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ظاہری اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ صرف دنیوی جھگڑا ختم کرنے کے لیے کارگر ہوتا ہے لیکن اخروی حلت اس سے ثابت نہیں ہوتی، قانونی حیثیت سے مدعی کو اس سے فائدہ ضرور ہوگا لیکن آخرت میں اس سے ضرور باز پر س ہوگی کیونکہ اس نے جانتے بوجھتے ہوئے غیر کا حق مارا ہے۔ جمہور اہل علم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
3۔باطنی اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ چیزمدعی کے لیے حلال ہو جائے گی اور اسے کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا اور نہ آخرت ہی میں اس سے کوئی باز پرس ہوگی، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے۔ اس موقف کو محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے مسترد کیا ہے۔ ان میں سرفہرست امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انھوں نے مذکورہ بالا حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی ایسے حالات میں اسے اخروی باز پرس سے نہیں بچا سکتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی چرب زبانی سے جو کوئی مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لےتو وہ غیر کا حق کسی صورت میں اس کے لیے حلال نہ ہوگا بلکہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں۔
4۔ہم اس مناسبت سے ان فقہائے کرام کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ جو جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی لحاظ سے نافذ سمجھتے ہیں اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم وزیادتی سے بھر پور ہو۔ ذرا چشم تصور کھول کر سوچیں اگر کوئی بدفطرت حیلہ ساز کسی کی معصوم بیٹی زبردستی چھین کر عدالت میں دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو جھوٹے گواہ پیش کر دے، عدالت ان گواہوں پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو کیا واقعی وہ معصوم لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اس سے اپنی شہوت پوری کرنا اس کے لیے جائز ہو جائے گا؟ بہرحال اس قسم کے مقدمات میں عدالت کے فیصلے صحیح نہ ہوں گے، خواہ دنیا جہان کی ساری عدالتیں اسے تسلیم کرلیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ ہی رہے گا۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔