تشریح:
1۔حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں ان کے دو گھر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حویلی میں تھے۔ انھوں نے فروخت کے لیے سب سے پہلے اپنے پڑوسی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رابطہ کیا۔ انھوں نے خریدنے سے انکار کر دیا اس کے لیے حضرت منوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو درمیان میں لائے اور اس مکان کی قیمت انھیں پانچ سو دینار نقد ملتی تھی لیکن حق ہمسائیگی کو ترجیح دیتے ہوئے نقصان برداشت کر لیا اور چار ہزار مثقال کے عوض حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کے ساتھ (صحیح البخاري، الشفعة، حدیث: 2258)
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الشفعہ میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ الْبَيْعِ) ’’فروخت سے پہلے شفعہ کرنے والے پر جائیداد کو پیش کرنا۔‘‘ اب حیلہ سازوں کی حیلہ گری دیکھیے کہ انھوں نے شفعہ کرنے والے کو حق شفعہ سے محروم کرنے کے لیے کئی قسم کے حیلے ایجاد کیے ہیں اس سلسلے میں ہم پہلے تفصیل بیان کر آئے ہیں۔
3۔بہر حال حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق ہمسائیگی کی ادائیگی میں کسی حیلے بہانے کو آڑ نہیں بنایا بلکہ پہلے انھیں ترجیح دیتے ہوئے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خریدنے کی پیشکش کی۔ صحابہ کرام اور جملہ سلف صالحین کا یہی طرز عمل تھا۔ وہ حیلوں بہانوں کی تلاش میں نہیں رہتے تھے بلکہ شرعی احکام پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے۔
4۔ ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو آخر میں بیان کیا ہے تاہم حیلہ سازوں نے اپنی ایک الگ کائنات بسا رکھی ہے وہ کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے بہرحال اہل حدیث حضرات اس قسم کے حیلوں سے بیزار ہیں اور ان سے اعلان براءت و نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ اثبات حق کے لیے نہیں بلکہ ابطال حق کے لیے کیے جاتے ہیں جس کی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔