تشریح:
1۔ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں پرمتفق ہیں، لہذا تم اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، فضل لیلة القدر، حدیث: 2015) لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب عادت ظاہر طریقے کے بجائے مخفی طریقے سے مسئلہ ثابت کیا ہے، یعنی چند لوگوں نے دیکھا کہ آخری دس تاریخوں میں ہے اور کچھ لوگوں کو آخری سات تاریخوں میں دکھائی گئی تو کم از کم آخری سات پرتمام کا اتفاق ثابت ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقی معاملہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري: 475/12)
2۔اس سلسلے میں بھی انسان کو ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ 400 ہجری میں جب فتنہ مہدی اٹھا تو اس فتنے کی بنیاد بھی خوابوں کا توارد، یعنی مختلف علاقوں کے رہنے والے مختلف لوگوں کو ایک جیسے خواب آنا تھا۔ ایک آدمی یمن سے آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے محمد بن عبداللہ قحطانی کو مہدی کی شکل میں دیکھا ہے۔ دوسرا مصری ہے اور وہ بھی یہی کہتا ہے۔ تیسرا نائجیری بھی اس طرح کا خواب بیان کرتا ہے۔ اس طرح وہ تحریک اٹھی اور وہ لوگ بیت اللہ میں جا گھسے، پھر ہوا جو ہوا۔ یہ ہماراچشم دید واقعہ ہے۔ کیونکہ راقم الحروف ان دنوں شرط الجیاد میں بحیثیت مترجم تعینات تھا۔
3۔ بہرحال انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق ہر لحاظ سے، ہرجگہ اور ہر حال میں مضبوط رکھنا چاہیے۔ ان خوابوں پر کسی چیز کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب پر ایک جماعت کا اتفاق کر لینا اس کے سچے اور صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ (فتح الباري: 475/12)