تشریح:
1۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد لوگوں نےحضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو وہ ایک بھاری لشکر لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی فوجوں کے ہمراہ کوفے کی طرف روانہ ہوئے۔یہ دونوں کوفے کے پاس ایک مقام پر اکھٹے ہوئے۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لشکروں کی تعداد دیکھی توحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آواز دے کر کہا:"میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں جو مجھے میرے پروردگار کے ہاں ملنے والی ہے۔اگراللہ تعالیٰ نے یہ حکومت تمہارے لیے لکھ دی ہے تو یہ مجھے ملنے والی نہیں اور اگرمیرے لیے لکھی ہے تو میں تمہارے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔"
2۔اس حدیث سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے حسن تدبیر سے خانہ جنگی کو ختم کردیا۔انھوں نے کسی کمزوری یا ذلت وقلت کے پیش نظر حکومت نہیں چھوڑی بلکہ مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لیے صلح کی تھی۔انھوں نے اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں انعامات میں رغبت کی اور فتنہ وفساد کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بڑی فراخدلی کا ثبوت دیا۔ انھوں نے سفید کاغذ پر مہر لگا کر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کر دیا کہ آپ جو بھی شرائط لکھ کر دیں، میں انھیں تسلیم کر کے صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔
3۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ملک کی تدبیر میں ان کی نظر بہت دور اندیش تھی اور وہ انجام پر کڑی نظر رکھتے تھے، اس کے علاوہ انھیں اپنی رعایا کے ساتھ بھی بہت ہمدردی تھی، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کے نفاذ کی شرط پر امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرلی، پھر آپ کوفے آئے تو تمام لوگوں نے آپ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ سے بیعت کی۔ لوگوں کے جمع ہونے اور خانہ جنگی ختم ہونے کی بنا پر اس سال کا نام "عام الجماعۃ" رکھا گیا۔ جو حضرات فتنے کے دور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، مثلاً: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی۔ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور انعام تین لاکھ درہم، ایک ہزار لباس، سو اونٹ اور تیس غلام دیے۔ صلح کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ روانہ ہو گئے۔ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کا اور حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرے کا حاکم بنا کر خود دمشق روانہ ہوگئے، اس طرح صلح کےمعاملات اختتام پذیر ہوئے۔ (فتح الباري: 80/13)
4۔واضح رہے کہ باہمی فتنہ فساد کی وجہ سے لوگوں کے ذہن اس حد تک خراب ہوچکے تھے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی تو لوگوں نے آپ کے خلاف آوازے کسے ’’اے مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعار!‘‘ لیکن حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مستقل مزاجی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ مجھے فتنوں کی آگ کے مقابلے میں عار زیادہ محبوب ہے۔ (فتح الباري: 82/13) (رضي الله عنه وعنا في الدنيا والآخرة)