تشریح:
1۔ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت کا فریضہ سرانجام اس لیے دیتے تھے کہ آپ قرآن کے زیادہ حافظ اور بہترین قاری تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث 692) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آزاد کردہ غلام کو حاکم یا قاضی بنانا جائز ہے بشرط یہ کہ اس میں اہلیت ہو، البتہ امامت کبریٰ کے لیے قریشی ہونا بنیادی شرط ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔
2۔حضرت نافع بن عبدالحارث، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مکہ کے گورنر تھے۔ ایک دفعہ وہ عسفان مقام پر ان سے ملنے آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا: مکے میں تمہارا نائب کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ ابن ابزی کو نائب بنا کر آیا ہوں۔ فرمایا: ایک غلام کو نائب بنایا ہے؟ عرض کی: وہ قرآن کے قاری اور علم فرائض کے عالم ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے سے بہت سی اقوام کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے اور بہت سی اقوام کو پستیوں میں گرادیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1897(817)