تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے اپنی طرف سے مقتول کی دیت ادا کر دی، نیز ان کی تالیف قلب (دل جوئی کرنا) بھی مقصود تھی ورنہ ان کا حق نہیں بنتا تھا کیونکہ وہ خود قسم اٹھانے پر آمادہ نہ تھے اور نہ یہودیوں کی قسم پر انھیں اعتبار ہی تھا۔
2۔عنوان کامقصد یہ ہے کہ حاکم وقت اپنے کارندوں کو زکاۃ کی وصولی یا جہاد سے متعلقہ ہدایات لکھ کر بھیج سکتا ہے، لیکن حدیث میں اپنے نائب کو لکھنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فریق مخالف یہودیوں کو لکھا۔ جب انھیں لکھا جا سکتا ہے تو اپنے عملے کو لکھنے میں کیا حرج ہے۔ (فتح الباري: 229/13)