تشریح:
1۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے پاس وقاف تھے، یعنی کتاب اللہ کے احکام پر فوراً عمل کیا کرتے تھے اور جو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے والا ہو وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اقتدا کرتا ہے۔
2۔اس حدیث سے علم اور اہل علم کی قدردانی کا پتا چلتا ہے کہ یہ اس وقت ہوتی ہے جب بادشاہ اور حکمران ان سے مشاورت کریں اور انھیں اپنے ہاں جگہ دیں۔ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشیر بھی علماء قراء اور نیک سیرت عبادت گزار بوڑھے اور نوجوان تھے۔ علم ہی ایک ایسی چیزہے جو بوڑھوں اور جوانوں میں افضلیت پیدا کرتی ہے۔
3۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس کے وقت کوئی دربان نہیں ہوتا تھا۔ ان کی مجلس میں داخل ہونے کے لیے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی، البتہ جب تنہا ہوتے اور آرام کا وقت ہوتا تو اس وقت ان کے پاس جانے کے لیے اجازت لینی پڑتی تھی، اس لیے عیینہ کو تنہائی میں آپ سے ملاقات کے لیے اجازت لینی پڑی لیکن اس نے آداب واحترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آتے ہی ’’اے خطاب کے بیٹے!‘‘ سے بات شروع کی۔ یہ اس کی قساوت قلبی (سخت دلی) اوربڑوں کے مقام ومرتبے سے عدم معرفت تھی۔ اگر اسے علم ہوتا تو ایسی گستاخی اور بدتمیزی نہ کرتا اور بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکالتا۔ حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرمداخلت نہ کرتے تو اسے ایسی سزا ملتی کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔
4۔بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کی اہمیت وافادیت کو ثابت کیا ہے جو اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ واللہ أعلم۔