تشریح:
1۔اس حدیث میں اس قسم کے قیاس اور رائے کی مذمت کی گئی ہے جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ ہماری فقہ میں سینکڑوں ایسے ساختہ مسائل موجود ہیں جو کتاب وسنت سے ٹکراتے ہیں اور واضح طور پر اس کے خلاف ہیں۔ اسی طرح رائے مذموم کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اصحاب رائے سے بچا کرو کیونکہ وہ سنتوں کے دشمن ہیں احادیث کو یاد رکھنے سے ان کی ہمتیں جواب دے گئیں تو انھوں نے رائے عقل اور قیاس سے کام لینا شروع کردیا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگادیا۔ (شرح أصول اعتقاد أھل السنة: 136/1) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ علماء کے رخصت ہونے کے بعد قحط رجال کا دور ہوگا پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی معاملات کو قیاس اور رائے سے حل کریں گے اس طرح وہ عمارت اسلام کو زمین بوس کرنے کا باعث ہوں گے۔ (فتح المنان: 216/2)
2۔بہر حال ان بزرگوں نے جس رائے اور قیاس کی مذمت کی ہے اس سے مراد وہ رائے ہے جو کتاب وسنت سے اخذ نہ کی گئی ہو۔ بلا شبہ نص کے ہوتے ہوئے رائے اور قیاس سے کام لینا بہت بڑی گمراہی ہے۔ (فتح الباري:354/13) بہر حال اگر کسی کو کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو احتیاط کرنی چاہیے۔ رائے زنی سے بچتے ہوئے اس پیش آنے والے مسئلے جیسے دوسرے مسئلوں پر غور کرے اور ان کی روشنی میں پیش آنے والے مسئلے کا حق تلاش کرے۔ واللہ أعلم۔