قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأْيِ وَتَكَلُّفِ القِيَاسِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {وَلاَ تَقْفُ} [الإسراء: 36] «لاَ تَقُلْ» {مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ} [هود: 46]

7307. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ وَغَيْرُهُ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ حَجَّ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاكُمُوهُ انْتِزَاعًا وَلَكِنْ يَنْتَزِعُهُ مِنْهُمْ مَعَ قَبْضِ الْعُلَمَاءِ بِعِلْمِهِمْ فَيَبْقَى نَاسٌ جُهَّالٌ يُسْتَفْتَوْنَ فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ فَيُضِلُّونَ وَيَضِلُّونَ فَحَدَّثْتُ بِهِ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو حَجَّ بَعْدُ فَقَالَتْ يَا ابْنَ أُخْتِي انْطَلِقْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَاسْتَثْبِتْ لِي مِنْهُ الَّذِي حَدَّثْتَنِي عَنْهُ فَجِئْتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَحَدَّثَنِي بِهِ كَنَحْوِ مَا حَدَّثَنِي فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَأَخْبَرْتُهَا فَعَجِبَتْ فَقَالَتْ وَاللَّهِ لَقَدْ حَفِظَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو

مترجم:

ترجمۃ الباب:

جیسا کہ ارشاد باری ہے سورۃ بنی اسرائیل میں ولا تقف لا تقل ما لیس لک بہ علم یعنی نہ کہو وہ بات جس کا تم کو علم نہ ہو ۔ تشریح : یا تکلف کے ساتھ قیاس کرنے کی جیسے حنفیہ نے استحسان نکالا ہے یعنی قیاس جلی کے خلاف ایک باریک علت کو لینا ہماری شرع میں ان باتوں کو کسی صحابی نے پسند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کتاب وسنت پر عمل کرتے رہے جس مسئلے میں کتاب وسنت کا حکم نہ ملا اس میں اپنی رائے کو دخل دیا وہ بھی سیدھے سادھے طور سے اور پیچ دار وجہوں سے ہمیشہ پر ہیز کیا ۔ ترجمہ باب میں رائے کی مذمت سے وہی رائے مراد ہے جو نص ہوتے ساتھی دی جائے۔

7307.

سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ حج پر جاتے ہوئے ہمارے پاس سے گزرے تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں علم دے کر پھر اسے یونہی نہیں چھین لے گا بلکہ علم اس طرح اٹھائے گا کہ علماء حضرات فوت ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ ہی علم اٹھ جائے گا پھر جاہل لوگ وہ جائیں گے۔ ان سے فتویٰ لیا جائے گا تو وہ محض اپنی رائے سے فتویٰ دے کر دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے خود بھی گمراہ ہوں گے۔۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: اے میرے بھانجے! تم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور تم نے جو حدیث ان کے حوالے سے مجھے بیان کی تھی اس کی تحقیق کرو۔ میں ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح وہ پہلے بیان کرچکے تھے۔ پھر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اور انہیں اس کی خبر دی تو انہیں تعجب اور فرمایا: اللہ کی قسم! عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو خوب یاد رکھا ہے۔