تشریح:
1۔اس حدیث سے محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے منکرین قیاس کے خلاف حجت قائم کی ہے، چنانچہ ابراہیم نظام، داود بن علی ظاہری، امام ابن حزم اور کچھ معتزلہ نے حجیت قیاس سے انکار کیا ہے لیکن اُمت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح شرائط کے ساتھ قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ اُمت کو پیش آنے والے مسائل اس کے بغیر حل نہیں ہوتے، البتہ اس میں توسیع پسندی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ ہمارے فقہاء نے ایسے ایسے فرضی مسائل بیان کیے ہیں جنھیں صحیح ماننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ افسوس کہ ان حضرات نے صحیح قیاس کے لیے جو حدود وشرائط تھیں ان میں سے کسی کا بھی خیال نہیں رکھا، پھر ایسے مسائل لکھ ڈالے کہ اغیار، شریعت اسلامیہ کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ العیاذ باللہ۔
2۔ بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قرض کی ادائیگی کو بندوں کے قرض کی ادائیگی پر قیاس کیا جسے اس خاتون نے خود تسلیم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اسے سمجھانا تھا۔ اگر ان شرائط اور مقاصد کو مد نظر رکھ کر قیاس کیا جائے تو اسے مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ واللہ أعلم۔